امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 376

کیا مغرب مسلمانوں سے نسل پرستی برتتا ہے

آج جی میں آئی کہ، ”آج خود اپنی اداوﺅں پہ ذرا غور کریں“۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کینیڈا، امریکہ اور دنیا میں کہیں بھی ہوں، اپنے ساتھ تعصبات اور زیادتیوں کا رونا روتے رہتے ہیں۔ آج کل نیا غلغلہ، اسلام دشمنی، یا اسلاموفوبیا کا ہے۔ ہمارے پاس تو اپنی اصطلاحات بھی نہیں ہیں۔ ہم نقالی پر ہی خوش ہیں۔اور دوسروں کی دی گئی ڈفلی بجاتے رہتے ہیں۔ ہم سے اکثر کو معلوم بھی نہیں کہ فوبیا کا مطلب کیا ہے۔ اسلام دشمنی کا نعرہ، امریکہ اور کینیڈا کا دیا ہوا نہیں ہے بلکہ خود ہماری اپنی ایجاد ہے۔ اس پر ابھی بات کرتے ہیں۔
سب سے بڑی شکایت ہم تارکینِ وطن کو یہ ہے کہ ہمارے ساتھ تعصب کیا جاتا ہے، اور ہمیں غیر سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں مناسب ملازمتیں نہیں ملتیں۔ ہماری عادت اور اطوار کو برا سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ سب سے زیادہ زور مذہب کی آزادی پر دیا جاتا ہے۔ سو ہم پہلے مذہب پر عمل کی آزادی پر بات کرتے ہیں۔
جہاں تک مذہب کی آزادی کی بات ہے تو سوال یہ ہے کہ مغربی ممالک میں مذہب ِ اسلا م کی آزادی پر کیا قدغنیں ہیں؟ اس کا جواب آپ کے پاس ہے۔ کیا آپ کو مغربی ممالک میں مسجدیں بنانے کی آزادی اجازت ہے؟ ہماری معلومات کے مطابق دنیا کا کوئی بھی مغربی ملک ایسا نہیں ہے کہ جہاں مسلمانوں کی مسجدیں نہ ہوں۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں جہاں مسلمان خاصی تعداد میں رہتے ہیں، آپ کو بڑی اور چھوٹی مسجدیں مل جایئں گی۔ اس کے برخلاف ابھی تک تقریباً ہر مسلم ملک میں غیر مسلم عبادت گاہیں بنانے پر کوئی نہ کوئی پابندی رہی ہے۔
یہ تحریر لکھتے وقت عام معلومات کے مطابق صرف کینیڈا میں سو سے زیادہ مساجد ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بعض مسلمان انتہائی رکیک تعصب کے تحت احمدی مسلمانوں کی مسجد کو مسلم مساجد میں نہیں گنتے۔ ان سو مساجد میں چھوٹے مصلوں کے ساتھ کروڑوں ڈالروں کی مالیت کی عمارات شامل ہیں۔ کینیڈا میں کوئی بھی مسجد خود کو ایک خیراتی ادارہ قرار دے کر حکومت کی منظوری سے ٹیکس کی چھوٹ حاصل کر سکتی ہے۔
امریکہ کی کچھ پرانے اعداد و شمار کے مطابق وہاں سنہ 2012 میں تقریباً اکیس سو مساجد تھیں۔ یہاں پر سب سے پہلی مسجد شاید سنہ انیس سو اکیس میں قائم کی گئی تھی۔ جو احمدی مسلمانوں نے بنائی تھی۔ اب سے تین چار سال قبل تک ، بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ساڑھے سترہ سو مساجد موجود تھیں۔ ہالینڈ میں ساڑھے چار سو مساجد، جرمنی میں تین ہزار مسجدیں، فرانس میں تین ہزارمسجدیں، بلجیئم میں تین سو تیس، اسپین میں ساڑھے چار سو، آسٹریا میں دو سو، اٹلی میں مسلم عبادت کے چھ سو ہال، سوئیڈن۔ ناروے۔ ڈنمارک میں تین سو مسلم عبادت گاہیں موجود ہیں۔
کیا ان اعداد و شمار سے آپ کو اندازہ نہیں ہوتا کہ مغربی ممالک میں مسلم مذہب کے پرچار کی کتنی آزادی ہے۔ اگر ان ممالک کے شہر اسلام دشمن یا اسلام سے خوفزدہ ہیں تو کیا وہ ان جمہوری مملک میں مسلمانوں کو عبادت گاہیں قائم کرنے دیتے؟
اب یہ سوچتے ہیں کہ آخر یہ اسلام دشمنی، اور اسلاموفوبیا کی اصطلاح کہاں سے آئی۔ سو اس کے لئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑے مسلم ممالک بالخصوص پاکستان اور مصر میں گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں ان ممالک میں جماعتِ اسلامی اور اخوان المسلمون اور ان کی ذیلی طلباءتنظیموں نے (جنہیں سعودی عرب سے خطیر امداد ملتی تھی، اور جو روس دشمنی میں امریکہ کے حلیف تھے باقاعدہ پالیسی کے تحت خود مسلم ممالک میں نفاق کی بنیاد ڈالی۔ جو ان سیاسی جماعتوں اور طلبا تنظیموں کے مقاصد کی حمایت کرتا تھا ، وہ اسلام دوست کہلاتا تھا۔ اور جو ان کی حمایت نہیں کرتا تھا، وہ اسلام دشمن قرار دیا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک ہر وہ شخص اورخیال ان سے مختلف تھا، اسلام دشمنی کا مرتکب اور قابلِ گردن زدنی تھا۔ پاکستان کی بڑی جامعات میںطلبا یونینوں کے انتخابات کے وقت اسلامی طلبا تنظیمیں یہ نعرہ لگاتی تھیںکہ، حق آئے گا اور باطل جائے گا۔ باطل کو اک دن جانا ہے۔
یہ موضوع خاصہ بڑا ہے اور طوالت مانگتا ہے۔ اس لئے ہم اسے بالاقساط ہیش کرتے رہیں گے۔ لیکن اب تک آپ کو اندازہ ہوا کہ ہم پر زیادتی غیر کرر ہے ہیں یا ہم خود ہی اسے کے ملزم ہیں۔
اگر آپ کینیڈا میں رہتے ہیں تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ تعلیمی ادار ے اور کاروباری اپنے مسلم طلبا اور ملازمین کے لئے کیا آسانی کرتے ہیں۔ تقریباً ہر اسکول اور کالج میں جمعہ کی نماز کی سہولت کے لئے خصوصی جگہ بنائی جاتی ہے۔ رمضان میں مسلم بچوں کے لئے دن دوپہر کے کھانے کے دوران کیفے ٹیریا ، اور کینیٹین سے دور خصوصی جگہ دی جاتی ہے تاکہ انہیں روزہ مشکل نہ لگے۔ دیگر مذاہب کے لوگ یہ سہولت طلب ہی نہیں کرتے۔
آج اتنا کافی ہے، ہم اسلامو فوبیا اور اسلام دشمنی پر آئندہ بات کریں گے۔ فی الحال آپ سے درخواست ہے کہ آپ خود غور کریں کہ مغربی ممالک میں مسجد بنانے کی آزادی ہے کہ نہیں؟ پھر یہ سوچیں کہ ہم معاشرہ میں دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔۔۔
(باقی آئندہ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں