بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 90

کیا نیوٹرل واقعی نیوٹرل ہیں؟

قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان میں فوج کا کردار بہت اہم رہا ہے بلکہ اکثر پاکستانی تو یوں بھی کہتے ہیں کہ قائد اعظم، لیاقت علی خان اور فاطمہ جناح کو راستے سے ہٹانے کے بعد آہستہ آہستہ فوج کا غلبہ پاکستان کی سیاست میں حاوی ہوتا چلا گیا۔ اس کا آغاز ایوب خان کے دور سے ہوا جنہیں قائد اعظم نے ناپسندیدگی کے ساتھ کئی ایک بار تنبیہہ کی کہ وہ سیاست سے دور رہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج تو اقتدار سے خود کو الگ نہ کرسکی مگر فوج کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو ایک ایک کرکے راستہ سے ہٹا دیا گیا اور ملک کے پولیٹیکل سسٹم میں گھس کر ایسے فیصلے کئے گئے کہ گزشتہ 75 سالوں میں صرف مفاد پرست ٹولہ ہی ملک کی اسمبلیوں تک پہنچ سکا اور یہ الیکشن انجینئرنگ آج تک جاری و ساری ہے۔ اب تو عدلیہ، میڈیا اور بیوروکریسی بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچ رہی ہے اور کیوں نہ ناچے، بندوق ہاتھوں میں ہو تو سب کو اپنے گھر اور بچے پیارے ہوتے ہیں۔
گزشتہ سالوں میں تو یہ جھرلو چلتا رہا اور قوم خاموش تماشائی بنی رہی مگر عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے وزیر اعظم کی حیثیت سے کوئی کامیابی حاصل کی یا نہیں مگر اس نے ان بدمعاشوں کے چہروں سے نقاب اتار دی جو پاکستان کے شرفا میں شمار ہوتے تھے اور جنہوں نے ایک چہرہ پر کئی چہرے سجائے ہوئے تھے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی کہ جسے ملک کے اندر حق اور سچ بولنے سے روکا گیا اس نے دنیا کے دیگر ممالک میں ڈیرے جمائے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ جس کے کئی ایک نقصانات ہوئے مگر ایک بات ضرور ہوئی کہ دنیا بھر میں پاکستان سے دولت لوٹنے والوں کے لئے دنیا تنگ کردی گئی۔
عمران خان کی خوش قسمتی کہئے کہ دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس وقت ان کی حامی ہے اور ملک میں بڑی ہونے والی نوجوان نسل جو اس وقت ملک کی اکثریت ہے عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہی وہ ڈراﺅنا خواب ہے جو ہمارے ان آقاﺅں کو ڈرا رہا ہے جنہوں نے ساری زندگی حکومت کرنے کے خواب دیکھ رکھے تھے۔ اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ فوج ہزارہا کہے کہ وہ سیاست سے دور ہے مگر حقائق یکسر مختلف ہیں، وجہ یہی ہے کہ فوج کے جرنلز کے منہ کو خون لگ چکا ہے، ان کے ملک میں سب سے زیادہ اسٹیک ہیں۔ ملک کی انڈسٹری، ٹرانسپورٹ اور رئیل اسٹیٹ سب پر فوج کا قبضہ ہے۔ ملک کے اداروں میں ریٹائرڈ فوجی بیٹھے ہیں، دنیا بھر کے سفارت خانوں میں فوج کے جاسوس کونسلر بنے بیٹھے ہیں اور خداداد پاکستان، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان بن کر رہ گیا ہے۔ نئے آرمی چیف چاہے جو بھی کرلیں مگر ان کے نیچے بیٹھے کور کمانڈرز کسی بھی صورت میں انہیں سیاست سے الگ ہونے نہیں دیں گے بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ یہ فوجی اسٹیبلشمنٹ تو اس قدر ظالم ہے کہ اگر موجودہ آرمی چیف نے سخت اقدامات اٹھائے تو ممکن ہے کہ انہیں بھی اس دارفانی سے کوچ کرنے میں زیادہ وقت نہ لگے۔
ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے فوجی حکمران اچانک موت کے منہ میں چلے گئے اور آج تک ان کی موت کا سبب معلوم نہ ہو سکا، وجہ یہ ہے کہ سپرپاورز کو ایک کرپٹ پاکستان چاہئے، انہیں مستحکم پاکستان کی قطعاً ضرورت نہیں اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت عوام کی مخالفت کے باوجود بڑے آرام سے اپنے مقاصد پورے کررہی ہے۔ لگتا تو یوں ہے کہ الیکشن جو کہ ناگزیر ہیں جلد نہیں ہوں گے۔ ہاں اگر عمران خان اور ان کے چند ہمراہیوں کو الیکش کے لئے نا اہل کردیا گیا تو پھر فوری انتخابات کی تاریخ کا اعلان متوقع ہے۔ اب یہ عوام کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ کرکے گلی محلوں میں نکلے اور الیکشن کا نہ صرف مکمل بائیکاٹ کرے بلکہ سول نافرمانی کی تحریک کا حصہ بنے اور اس وقت تک گھروں کو نہ لوٹے جب تک ملک کی باگ ڈور سچے اور ایماندار لوگوں کے حوالہ اور فوج اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے نہ کہ سیاست میں خود کو ملوث رکھے۔
جب سچ نہ چلے تو جھوٹ سہی
جب حق نہ ملے تو لوٹ سہی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں