640

کیا پاکستان میں تبدیلی ممکن ہے؟

ہمارا پیارا ملک پاکستان جس کا ہر فرد اس کی ترقی اور خوشحالی کا خواہش مند ہے۔ آج کل ہر دوسرے شخص بلکہ ہر دوسرے ملک کی زبان پر یہی سوال ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد کوئی تبدیلی کوئی بہتری آئی ہے، میرا ان لوگوں سے یہی کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ گھمائی اور پل بھر میں سب کچھ ہو جائے گا۔ صدیوق سے چلے آرہے کرپشن کو حل کرنا آسان نہیں بلکہ نہایت ہی کٹھن اور مشکل کام ہے۔ لیکن یہ بات ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ تبدیلی کی ابتداءہو چکی ہے۔ خود عمران خان وزیر اعظم ہاﺅس کے بجائے چھوٹے گھر میں رہ رہے ہیں۔ ان کے وزراءلائن میں لگ کے عام جہازوں کے ٹکٹ لے رہے ہیں۔ پروٹوکول پر جو خرچہ ہوتا تھا۔ اس کی بچت کافی حد تک ہو رہی ہے۔ پاکستان میں جب سے نئی حکومت بنی ہے اس وقت سے اس حکومت نے کرپشن کے خلاف اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی دن سے حکومت کی کوشش ہے کہ سیاست دانوں سمیت تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں تمام کرپٹ لوگوں کو گرفتار کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ اور وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تازہ ترین پریس کانفرنس میں ایک دفعہ پھر اس اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان پچھلے حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے اور ان قرضوں کو اتارنے کے لئے بجلی اور گیس کی قیمتوں کو بڑھانا پڑے گا کیونکہ سابق حکمرانوں نے اپنی کرپشن کی وجہ سے ملک کو اس حالت میں پہنچا دیا ہے کہ ملک کو چلانے کے لئے چیزیں مہنگی کرنی پڑیں گیں اور سبسٹڈی کم کرنا ہو گی اور مزید قرضے بھی لینے ہوں گے۔ وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ ہر صورت میں سابق حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت کو بھی واپس لایا جائے گا۔ قرضوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 2013ءسے 2018ءتک صرف پانچ سال میں سابق حکومت کی غلطیوں اور کرپشن کی وجہ سے قرضوں کا بوجھ بڑھ کر اٹھائیس ہزار ارب روپے ہو گیا ہے اور بیرونی قرضہ جات ساٹھ ارب ڈالر سے بڑھ کر پچانوے ارب ڈالر ہو چکے ہیں ان تمام حالات میں حکومت کو تمام مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ تب ہی تبدیلی ممکن ہو سکے گی کیونکہ پاکستان کی حکومت غریب ہے اور لوگ امیر ہیں۔ انکم ٹیکس دینے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور حکومت کے تمام اقدامات کے باوجود ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہو رہی لیکن اصل وجہ لوگوں کا ٹیکس دینا نہیں ہے بلکہ حکومت کے اخراجات ہیں۔ دنیا کے تمام ترقیاتی ممالک میں سرکاری گاڑیاں اور سرکاری رہائش نہیں دی جاتیں جس طرح پاکستان میں سرکاری ملازمین کو یہ سہولتیں ملتی ہیں لیکن اس معاملے میں بھی حکومت اقدامات کررہی ہے اور مثبت تبدیلی آرہی ہے اور یہ تبدیلی عمران خان نے خود ور اپنے وزراءسے شروع کی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ان شاءاللہ دنیا پاکستان کو ایک بدلے ہوئے روپ میں دیکھے گی۔
پاکستان کا سیاسی منظر نامہ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد سے جس رُخ کی جانب جارہا ہے اس میں سرنگ کی دوسری جانب روشنی کی کرن نظر تو آرہی ہے کہ خارجہ پالیسی کا مثبت پہلو سامنے آیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے خطاب کے توسط سے نہ صرف پاکستان کا موقف دنیا کے سامنے آیا بلکہ بھارت کا مکروہ چہرہ اور کشمیر کے مظلوم عوام پر بھارتی جبر و تشدد اور چیرہ دستیوں پر بھی عالمی رائے عامہ میں تبدیلی کے مثبت آثار نظر آرہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں بھی کرپشن میں ملوث سیاسی اور دیگر مافیا پر بھی نیب کا گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے۔ شہباز شریف کی آشیانہ اسکیم میں گرفتاری، احتساب عدالت سے دس روزہ ریمانڈ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی لاہور ہائی کورٹ میں بغاوت اور قومی راز افشاءکرنے کے الزام میں پیشی، فالودہ والے کے بینک میں 2 ارب، پنجاب سرحد میں غریب ریڑھی اور طالب علم کے اکاﺅنٹس میں کروڑوں روپے کا انکشاف، نیب اور عدالت کے مضبوط اقدامات نے سیاسی قیادت میں ہلچل اور گھبراہٹ پیدا کردی ہے۔ حمزہ شہباز، مریم اورنگزیب کی شہباز شریف کی گرفتاری پر چیخیں اور نیب کے اقدامات پر فوج اور عمران خان پر الزام تراشی واضح کررہی ہیں کہ انہیں اس صورت حال سے بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی اور حقائق کو دھندلانے کے لئے وہ بے سروپا الزامات اور حکومت و اسٹیبلشمنٹ گٹھ جوڑ مفروضے پر رائے عامہ کو متاثر کرنے اور اپنے رہنماﺅں کو بچانے کے چکر میں ہیں۔ کچھ یہی صورت حال پیپلزپارٹی اور دیگر مال بنانے والی جماعتوں کا بھی ہے۔ خورشید شاہ قائد حزب اختلاف کی گرفتاری کو جواز بنا کر شور مچا رہے ہیں۔ اس شور شرابے کو پس منظر میں زرداری اینڈ کمپنی کی بے نامی اور غریبوں کے اکاﺅنٹس کی آڑ میں کرپشن اور منی لانڈرنگ میں جرائم اور پردہ پوشی مقصود ہے۔
بادی النظر میں یہی نظر آرہا ہے کہ کرپشن کی بیخ کنی اور بدعنوانیوں کا انجام نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔ بڑے پیمانے پر عدالتوں کے بہترین فیصلے آرہے ہیں بس اب ضرورت ہے تو (Rapid Justis System) ریپڈ جسٹس سسٹم کی تاکہ عام لوگوں کو بھی انصاف مل سکے۔ کرائم کرنے والوں کو بروقت سزا ہی عام لوگوں کو انصاف دلا سکتی ہے کیونکہ صدیوں سے قتل و غارت، لوٹ مار اور ریپ جیسے جرائم کرنے والوں کے کیس سالوں عدالتوں میں چلتے رہتے ہیں۔ امیر لوگ پیسہ دے کر اپنی جان بچا لیتے ہیں اور غریب سالوں عدالتوں کے چکر کاٹ کر اپنی زندگی ختم کر دیتا ہے۔ ریپڈ جسٹس سسٹم کی طرف اگر عمران خان اور چیف جسٹس دھیاں دیں تو بہت جلد عام انسان کو بھی انصاف ملے گا اور صحیح معنوں میں یہ تبدیلی ہوگی۔ بہرحال تبدیلی کی ابتداءہو چکی ہے۔ عمران خان کی قیادت میں ان کا ہر اوّل دستہ اپنی ذمہ داریوں اور کوششوں میں مصروف ہے تاکہ پاکستان کو ایک نیا پاکستان بنا سکیں ہم سب کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو کامیابیاں عطا کریں۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں