بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، حسن عسکری بھائی کو صدارتی تمغہءحسنِ کارکردگی مبارک 76

کیا ہم نے کبھی فرض سے انکار کیا ہے؟

” میں پہلے پاکستانی پھر عقیدہ کے لحاظ سے کریسچن ہوں “مجھے اکثر یہ شکایت سننے کو ملتی تھی کہ ہم کرسچن لوگوں کو آگے بڑھنے کے کم مواقع ملتے ہیں۔میں ہمیشہ انہیں کہتا کہ اقلیت کو اکثریت کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت سخت محنت کرنا پڑتی ہے اور یہ ایک عالمی حقیقت ہے۔ فنکار کی صلاحیت اور اہلیت اسے آگے بڑھا تی ہے۔ فنکار کو اس کے مذہب اور نام سے نہیں اس کے کام سے واہ واہ ےا ستائش ملتی ہے۔ مجھے بھی میری عمر بھر کی محنت اور کاوشوں کا صلہ 2011 میں مِلا جب صد رِ پاکستان نے مجھے تمغہ حسن کارکردگی دیا۔“جون بھائی المعروف ایس بی جون با عزت کر یسچن گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔اتنی شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے پیسے کو اوڑھنا بچھونا نہیں بنایا۔ گانے کو شوق کی حد تک رکھا اور قناعت کے ساتھ اپنے بچوں کی پرورش کی۔اِس کے نتیجے میں ان کی اولاد سعادت مند اور فرماں بردار نکلی۔ 1965 اور 1971 کی جنگوں کا ذکر ہوا تو ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ” ادھر شاعر گیت لکھتے ادھر موسیقار فنکاروں کوریہرسل کروانے لگتے اور کم سے کم وقت میں ریکارڈ کرنے کی کوشش کرتے“ ریڈیو پاکستان کراچی کے سابق لائبریرین آفتاب بھائی نے مجھے بتایا تھا کہ جون بھائی نے جنگِ ستمبر میں 8 گیت ریکارڈ کروائے۔ اسی طرح ریڈیو پاکستان لاہور کے سابق پروڈیوسر محمد اعظم نے مجھے بتایا جنگ کے پہلے ہی دن میڈم نورجہاں نے خود بلا معاوضہ ترانوں کے لئے پیشکش کی۔ محمد اعظم ا±س وقت پروگرام پروڈیوسرتھے۔ان کو اسٹیشن ڈائریکٹر شمس الدین بٹ نے حکم دیاکہ اب یہ تمام کام تمہارے سپرد ہے۔اس وقت صوفی تبسم بٹ کے پاس بیٹھے تھے۔اعظم صاحب ان کے پاس پہنچے اور کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ صوفی صاحب نے فوراََ مکھڑا لکھ دیا : ” میریا ڈھول سپا ہیا تینوں رب دیاں رکھاں “۔اس وقت موسیقار بھایوں کی جوڑی سلیم حسین اور اقبال حسین بھی موجود تھے۔ اعظم صاحب وہ مکھڑا لئے اِن کے پاس پہنچے۔ ریڈیو کی عمارت میں موجودسازندوں میں سے 9 کو منتخب کر کے مستقل موجود رہنے کی ہدایات دیں۔ اب محمد اعظم دوبارہ صوفی صاحب کے پاس پہنچے اور” انترے “ لکھنے کی درخواست کی۔ گھنٹے دو گھنٹے میں ایک انترا لکھا گیا جسے لے کر وہ موسیقار سلیم اقبال کے پاس بھاگے۔ تب تک استھائی کی دھن تیار ہو گئی تھی جس کی ریہرسل شروع تھی۔ اب انترے کی دھن بنی۔ اسی طرح شاعر، موسیقار، سازندے، ریکارڈنگ وغیرہ کے درمیان بھاگ دوڑ کرتے پانچ چھ گھنٹوں میں ترانہ تےار ہو گیا۔اور تدوین کے بعد شام ہوتے ہوتے ریڈیو سے نشر بھی ہو گیا۔اس ترانے کی تےاری میں ہر رکن اپنی جگہ کام کر رہا تھا اور محمد اعظم اِن سب کے درمیان پل تھے۔ترانہ نشر ہوا اور راتوں رات ملک بھر میں مقبول بھی …. اس طرح دورانِ جنگ روزانہ میڈم کا نیا ترانہ ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہوا کرتا تھا۔ 1971 کی جنگ کے دوران ساقی جا وید کے لکھے ہوئے ایک گیت کی تاریخی حیثیت ہے۔ جس کو جون بھائی نے کمپوز کیا اور اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا :
اے ارضِ وطن تو ہی بتا تیری صدا پر
کیا ہم نے کبھی فرض سے ا نکار کیا ہے
اس نغمے کے ذکر میںانہوں نے ایک دلچسپ بات بتلائی۔ ” بھٹو صاحب کا بالکل ابتدائی دور تھا جب اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر مینارٹی کانفرنس منعقد لرائی۔ بھٹو صاحب اور کوثر نیازی کے بعد مجھے روسٹرم پر بلوایا گیا۔ میں نے وہاں یہی ملی نغمہ سنایا۔ ابھی پہلا شعر ہی ادا کیا تھا کہ بھٹو صاحب اور دیگر حاضرین نے خوشی کا اظہار کیا اور حوصلہ بڑھایا۔نغمہ ختم ہوا تو بھٹو صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کس کا لکھا ہوا ہے؟ میں نے ساقی جاوید کا نام لیا۔پھر پوچھا کہ کس نے دھن بنائی تھی۔جب کہا کہ میں نے، تو اپنے پاس بلوایا اور کہا کہ شام کے سیشن میں بھی یہ نغمہ سنانا“۔ پھر جون بھائی نے شام کو بھی یہ نغمہ سنایا۔گویا پاکستانی اقلیتیں کہہ رہی ہیں کہ جنگ ہو یا امن ! ہم نے اپنے فرائض نہایت ذمہ داری سے ادا کےے اور جنگوں میں اپنے وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ! جون بھائی نے بیشک صحیح کہا۔ اسکوارڈن لیڈر ( میجر) پیٹر کرسٹی Peter Christy جنہوں نے جنگِ ستمبر میں حصہ لیا اور 6 دسمبر 1971 کو بھارتی ائیر فورس کے بیس جام نگر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر واپسی پر ملک اور قوم کی خاطر شہید ہو گئے۔انہیں تمغہ جرات (1965)، ستارہ جرات( 1971)سے نوازا گیا۔پھر سسل چوہدری کا نام بھلا کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ یہ 1965 کی جنگ میں لاہور شہر کے اوپر ڈاگ فائٹ اور6 ستمبرہلواڑہ ایر بیس کے ” رن وے “ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ’ ہلواڑہ پیٹنے ‘ والے معرکہ کے ہیرو ہیں۔ہم ان کے یوں بھی شکر گزار ہیں کہ ان کے وجہ سے نیا محاورہ ” ہلواڑہ پیٹنا “ وجود میں آیا۔سسل چوہدری نے 1971 کی جنگ میں اسکورڈرن لیڈر کی حیثیت سے بھی حصہ لیا۔ انہیں 1965 کے معرکہ میں ستارہ جرت اور 1971کی جنگ میں تمغہ جرت دیا گیا۔ جون بھائی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ سسل چوہدری ا±ن کی بیٹی کے چچا سسر تھے۔یہ میرے لئے بھی ایک اعزاز ہے کہ میں لاہور میں دو مرتبہ سسل چوہدری سے ملا۔ ہم ان پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔اور یقیناََ یہ کرسچن برادری کے لئے بھی ایک اعزاز ہیں۔ وطن کے دفاع میں پاکستانی اقلیتیں کسی سے کم نہیں ہیں !!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں