امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 433

کینیڈا ۔ نسل پرستی ۔ آئس ہاکی ۔ ڈون چیری

کینیڈا بادی النظر میں تو ایک بہت مہذب اور غیر متعصب ملک نظر آتا ہے، جو کسی حد تک درست بھی ہے، لیکن اس کا کھلے بندوں ایک چھ±پا روپ یہ بھی ہے کہ یہاں سفید فام نسلوں کا تعصب اور برتری اس کے مزاج میں صدیوں سے موجود ہے۔ گو اب کچھ سالوں سے یہ صورتِ حال بہتر ہونے لگی ہے ، لیکن اس میں اب بھی یہاں کے اولین باشندوں کی زمین پر غاصبانہ قبضہ اور ان نسلوں کے ساتھ مسلسل زیادتی، کینیڈا کے دامن پر ایک سیاہ داغ ہے۔ اسی طرح یہاں کے غیر سیاہ فام باشندوں اور نو وارد شہریوں کے ساتھ رکیک تعصب بھی کینیڈا کے کردار کو میلا کرتا ہے۔
آئس ہاکی کینیڈا کا قومی کھیل سمجھا جاتا ہے۔ یہ کھیل فطرتاً سفید فاموں کے احساسِ برتری کی علامت ہے۔ اگر آپ شمالی امریکہ کے دیگر اہم کھیلوں مثلاً بیس بال، یا باسکٹ بال دیکھیں تو آپ کو سیاہ فاموں کی شرکت واضح طور پر نظر آئے گی۔ لیکن آئس ہاکی میں غیر سفید فام آپ کو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ملیں گے۔
اس کھیل کو اس کی مقبولیت کی بنیاد پر بڑی مالی مراعات ملتی ہیں۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبا ر اس کو اہم جگہ دیتے ہیں، اور مشتہرین سے بڑی تعداد میں مہنگے اشتہار حاصل کر سکتے۔ میڈیا اس کھیل پر گھنٹوں پر مبنی پروگرام کرتے ہیں۔اس کھیل کے مبصرین اور کمنٹری کرنے والے بھی عوام میں بڑی مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں۔ شاید آپ یہ جان کر حیران ہوں کہ اس کھیل پر پروگرام نہ صرف انگریزی اور فرانسیسی زبان میں بلکہ، اب پنجابی اور چینی زبان میں بھی ہوتے ہیں۔
کینیڈا میں اس کھیل کے بڑے حقوق بڑے میڈیا ادارواں مثلًاسی بی سی، سی ٹی وی، اور اسپورٹس نیٹ کو حاصل ہیں۔ اسپورٹس نیٹ کے ہاکی پر وگراموں میں ایک اہم پروگرام Hockey Night in Canada ہے۔ جس کا ذیلی پروگرام Coach’s Corner ہے۔ گزشتہ اکتیس سال سے اس پروگرام کی میزبانی ہاکی کے ایک سابق کھلاڑی اور کوچ Don Cherry کرتے رہے تھے۔ وہ اپنے منہ پھٹ ہونے اور جو منہ آیا کہنے کی بنیاد پر عوام میں بہت مقبول تھے۔ وہ اکڑ، متعصبانہ، نسل پرستانہ خرافات بکتے رہتے تھے۔ لیکن کبھی ان کی پکڑ نہیں ہوئی۔ کیونکہ جو تعصبات وہ بھڑکاتے تھے وہ متعصب سفید فاموں میں عام ہیں۔ ہم نے پہلے ہی بتایا کہ ہاکی ایک سفید فام کھیل ہے۔
لیکن گزشتہ ہفتہ ان کا ایک متعصب بلکہ یوں کہیں کہ نسل پرست جملہ یک زدن میں عوام میں پھیلا اور ان کے خلاف شدید جذبات پھوٹ پڑے۔ وہ جملہ آپ کو سمجھانے سے پہلے کینیڈا کی ایک اور روایت پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ مغرب کی جنگ پرست اور فاتحانہ ذہنیت کے تحت سو سال گزرنے کے بعد آج بھی کینیڈا میں پہلی، دوسری عظیم جنگوں اور بعد میں امریکہ کی حمایت میں کی گئی جنگوں کی یاد یہاں ہر سال منائی جاتی ہے۔
اس جنگ میں کام آجانے والوں کی یاد میں لوگ اپنے لباسوں پر لال رنگ کے پھول لگاتے ہیں۔ ان پھولوں کی فروخت سے جو رقم بچ جاتی ہے وہ ان جنگوں میں بچ جانے والے سابق فوجیوں کی امداد کے لیئے مختص کی جاتی ہے۔ یہ یاد مغربی یورپ کے ممالک اور امریکہ میں منائی جاتی ہے۔ اس روایت کا ایشیا، امریکہ، افریقہ اور لاطینی امریکہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ا ن پھولوں کی فروخت اور استعمال اکتوبر سے نومبر کے اوائل تک جاری رہتا ہے۔ اس یاد کے لیے نومبر کا دوسرا ہفتہ مختص ہے۔
لال رنگ کا یہ پھول ، Poppy کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کینیڈا کے سفید فام لوگ یہ پھول عام طور پر خریدتے ہیں۔ کچھ غیر سفید فام بھی ایسا کرتے ہیں ، لیکن گزشتہ سالوں کے نوواردوں میں ایسا کم ہوتا ہے۔ بعض شدت پسند ، ان لوگوں سے نالاں رہتے ہیں جنہیں نے یہ پھول نہ لگایا ہو۔
اسی بات پر ڈون چیری نے ایک انتہائی متعصبانہ اور نفرت انگیز جملہ کسا جو یوں ہے۔۔۔
You people, you love our way of life, you love our milk and honey, at least you can pay a couple bucks for a poppy or something like that. These guys paid for your way of life that you enjoy in Canada, these guys paid the biggest price
ترجمہ: آپ لوگ، ہمارے طریقِ زندگی کو پسند کرتے ہیں۔ آپ ہمارے دودھ اور شہد کو پسند کرتے ہیں۔ آپ لال پھول خریدنے کے لیئے کم از کم ایک دو ڈالر خرچ کر سکتے ہیں۔ ان لوگوں نے آپ کے طریقِ زندگی کی قیمت ادا کی ہے۔ انہوں نے گراں ترین قیمت ادا کی ہے۔
بادی النظر میں ان کا ااشارہ ٹورونٹو اور مسی ساگا میں بسنے والے شہریوں کی طرف تھا، جن کی اکثریت اب غیر سفید فام ہے۔ جیسے ہی یہ جملہ نشر ہوا ، اس پر ہر طرف سے احتجاج کا شور اٹھا۔ اس احتجاج اور ناپسندیدگی کے بعد بھی عام خیال یہ تھا کہ ڈون چیری کے خلاف کوئی انتظامی اقدام نہیں لیا جائے گا۔ کیونکہ وہ پہلے بھی اس قسم کی باتوں پر بچتے رہے ہیں۔ لیکن اب کینیڈا میں تبدیلی آرہی ہے۔ اسپورٹس نیٹ کے ادار ے پر اب چینی اور پنجابی میں پروگرام پیش کیئے جاتے ہیں، جو ان اقوام میں اور دیگر قومیتوں میں مقبول ہیں۔
ادار ے نے، ڈون چیری سے اس جملہ کے بارے میں بات چیت کی ، لیکن انہوں نے کسی قسم کی معذرت نہیں کی اور اپنے بیان پر اڑے رہے۔ آخرِ کار اسپورٹس نیٹ نے (جس کا مالک کینیڈا کا بڑا مواصلاتی ادارہ Rogers ہے) ان کو اکتیس سال سے جاری میزبانی کی ملازمت سے الگ کر دیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ راجرز کے صارفین میں بڑی تعداد میں غیر سفید فام شامل ہیں۔ اس کے ساتھ شراب فروخت کرنے والی بڑی کمپنی ’لباٹ ‘ نے بھی، جو اس پروگرام کو اشتہار دیتی تھی، ڈون چیری سے ناراضگی کا اظہار کر دیا۔
ڈون چیری اب بھی شرمندہ نہیں اور آزادیءاظہار کا شور مچارہے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ آزادی اظہار، نفرت اور بہتان ترازی، کی حفاظت نہیں کرتی۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ کینیڈ ا کی بظاہر خوش کرداری کے باجود یہاں نسلی تعصب کی ایک زیریں لہر موجود ہے، جو اکثر کھلے بندوں اجاگر بھی ہو جاتی ہے۔ اس لہر کے خلاف ہر دم آواز اٹھانا آپ کا فرض ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں