384

کینیڈین پاکستانیوں کیلئے میرا یہی پیغام ہے کہ ”اپنے وطن سے پیار کریں“، لیلیٰ زبیری

پاکستان کی مشہور ٹی وی آرٹسٹ لیلیٰ زبیری ٹورنٹو تشریف لائیں تو یہاں کی کمیونٹی نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کی بے تحاشہ پذیرائی کی گئی۔ ہم مشکور ہیں ان کی کزن غزالہ زبیری اور ٹائمز ٹی وی کی ہوسٹ برائے پروگرام “Inspiring Women” ریما زبیری کا کہ جن کے تعاون سے ہماری ملاقات محترمہ لیلیٰ زبیری سے ہوئی اور ان سے تفصیلی تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا۔ ان سے کی گئی بات چیت قارئین کی نذر ہے۔
پاکستان ٹائمز: لیلیٰ صاحبہ، ہم آپ کو کینیڈا آمد پر خوش آمدید کہتے ہیں، ہمیں بتائیے کہ آپ کا یہ دورہ کیسا رہا؟
لیلیٰ زبیری: شکریہ، میں اپنی کزن غزالہ زبیری کی دعوت پر کینیڈا آئی ہوں اور یہ میرا مختصر دورہ ہے کیونکہ پاکستان میں میری کمٹمنٹ اس قدر ہیں کہ پاکستان سے نکلنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2006ءکے بعد اب کینیڈا آنا ہوا اور وہ بھی غزالہ کے اصرار پر اور ان کی Marriage Anniversary ۔ 14 سال بعد کینیڈا آنے کی وجہ بنی۔
پاکستان ٹائمز: زبیری صاحبہ، یہ بتائیے کہ کیسے دیکھتی ہیں، ماضی میں پاکستان ٹیلی ویژن سے شروع کئے گئے سفر سے آج چینلز کی دوڑ میں خود کو کہاں پاتی ہیں؟
لیلیٰ زبیری: پی ٹی وی دور کا کوئی موازنہ نہیں، یقیناً وہ ایک ایسا دور تھا کہ جب پی ٹی وی میں کام کرنے کے لئے پورے خاندان سے مخالفت لینا پڑتی تھی، لوگ پسند نہیں کرتے تھے، کچھ ماحول بھی ایسا موافق نہیں تھا مگر میرے والدین کا تعاون شامل حال رہا اور پھر خوش قسمتی یہ رہی کہ شادی کے بعد بھی میرے شوہر طارق زبیری نے میری حوصلہ افزائی کی۔ یوں میرے لئے ممکن ہو سکا کہ میں اپنی بہترین پرفارمنس دینے کے قابل ہوئی اور یقیناً بہت مشکور ہوں اپنے ناظرین کی کہ جنہوں نے مجھے ہر رول میں سراہا اور پسند کیا۔ میں اپنے ڈائریکٹرز، پروڈیوسر اور ساتھ میں کام کرتے فنکاروں کے بہترین ٹیم ورک کی بھی تعریف کروں گی کہ جس کے سبب میں خود کو ہر رول میں منوانے میں کامیاب ہوئی۔ پی ٹی وی کے دور میں بڑے چیلنجز تھے۔ کام کرنے میں وہ سہولیات نہیں تھیں جو آج ہیں۔ ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانس نہیں تھی، جتنی آج ہے۔ صرف پی ٹی وی کی نشریات تھیں مگر آج پاکستان میں چینلز کی بھرمار ہے اور ریٹنگ کی ایک ایسی دوڑ شروع ہو چکی ہے کہ جس کے سبب بہت سے معیار بدل گئے ہیں۔ ہمارے شروع کے دور میں ہم اپنے ٹیچرز، بزرگوں اور اپنے سینئر فنکاروں کی بڑی عزت کرتے تھے ان کی قدر اور ان کا احترام لازم تھا مگر اب وقت بدل گیا ہے، اب جونیئر فنکار سب کچھ جانتے ہیں اور چینلز کی دوڑ نے تمام فنکاروں کو اس قدر مصروف کردیا ہے کہ اب کسی کے پاس سوچنے کا وقت نہیں۔ اگر پروگراموں کی بات کریں تو پہلے زمانے میں ہر ڈرامہ میں ایک پیغام ہوتا تھا۔ ایک معیار ہوتا تھا۔ مگر اب وہ معیار نہیں رہا، ہم اپنے کلچر سے دور ہو گئے۔ اب ہر چیز materialize ہو گئی ہے۔ اب چینلز وہ دکھاتے ہیں جس سے ان کی ریٹنگ میں اضافہ ہو۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اب وہ معیار نہیں رہا کہ آپ اپنی فیملی کے ساتھ اور اپنے بزرگوں اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کوئی ڈرامہ سیریل دیکھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اب فنکاروں کی بڑی مانگ ہے۔ اب پیسہ بھی خوب ملتا ہے۔ اور لوگ بیک وقت کئی ایک چینلز کے لئے ریکارڈنگ کرارہے ہوتے ہیں مگر یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ آج بننے والے ڈرامہ ایسے میسجز ہماری نئی نسل کو دے رہے ہیں جن پر کئی ایک سوال اُٹھ رہے ہیں۔ مگر کیا کیا جائے، چینلز تو وہی دکھائیں گے جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ آج ہم تکنیکی لحاظ سے بہت ترقی کر گئے ہیں، پہلے ریکارڈنگ کے لئے بہت وقت درکار ہوتا تھا مگر اب کام تیز بھی ہو گیا اور آسان بھی۔ ہم کئی ایک چینلز کی ریکارڈنگ manage کر لیتے ہیں جو کہ پہلے نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہوتا تھا۔ ہاں البتہ میں یہ ضرور کہوں گی کہ آج Content کہیں کھو گیا ہے۔ پہلے ڈرامہ زندگی سے بہت قریب ہوتے تھے۔ سوسائٹی کے ایشوز پر سیریل بنتے تھے۔ فنکار بھی اپنے شوق سے کام کرتے تھے، پیسوں کی دوڑ اس قدر نہ تھی، مگر آج پیسے کی اہمیت زیادہ ہو چکی ہے۔ آج کے فنکار materialistic زیادہ ہو گئے ہیں۔ یوں تو پوری سوسائٹی ہی بدل گئی ہے اور معاشرہ بھی بدل رہا ہے۔ میں بتاتی چلوں کہ جو ہماری پروڈکشن کمپنیز ہیں وہ بھی ان فنکاروں کو جن کا مین رول ہوتا ہے زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ اور خیال رکھتی ہیں کہ یہ فنکار ناراض نہ ہو جائیں۔ یوں انہیں پروٹوکول بھی زیادہ ملتا ہے۔ مراعات بھی زیادہ ملتی ہیں اور یوں وہ خود کو زیادہ Superior سمجھتے ہیں اور خود کو اہم سمجھنے لگتے ہیں۔
پاکستان ٹائمز: موجودہ حکومت اور سابقہ حکومتوں کو کیسے دیکھتی ہیں؟
لیلیٰ زبیری: پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں میں بگڑ جانے والی چیزوں کو یکدم ٹھیک کرنا ممکن نہیں۔ موجودہ حکومت کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو نہیں کہ گھمائیں گے اور حالات بدل جائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ عمران خان ایک ایماندار انسان ہے اور اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح ملک کو مشکلات سے نکال لے مگر اس کے ساتھ بھی پرانے سیاستدان ہیں۔ پرانی بیوروکریسی ہے اور اس کے سامنے کئی چیلنجز ہیں، یقیناً اتنے بگاڑ کے بعد چیزیں ٹھیک کرنے میں وقت تو لگے گا چنانچہ وہ ایمانداری کے ساتھ کوشش کررہا ہے اور ہمیں صبر کے ساتھ موجودہ مسائل کو برداشت کرنا چاہئے۔ ہم نے گزشتہ سالوں میں زبان بند رکھی ہے تو اب بھی تھوڑا وقت برداشت کرلیں۔ یہی ہمارے لئے بہتر ہوگا۔ کیونکہ حکومت کی ڈائریکرکشن غلط نہیں ہے۔ اللہ کرے کہ عمران خان اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں اس بار حکومت اور عسکری ادارے بھی ایک صفحہ پر ہیں جس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلے گا۔ میں اس کو سپورٹ کرتی ہوں۔ جو پاکستان کی بہتری کے لئے کام کرے گا۔
پاکستان ٹائمز: آج کل کی ڈرامہ سیریل کے بارے میں کیا کہتی ہیں، کیا وہ ہمارے معاشرے سے مطابقت رکھتے ہیں؟
لیلیٰ زبیری: میرا خیال ہے کہ ہم کچھ چیزیں ٹھیک نہیں کررہے، کچھ پیغام جو ہم اپنے سیریلز کے ذریعہ عوام تک پہنچا رہے ہیں ان سے میں بھی اکثر اختلاف کرتی ہوں جیسا کہ ہمارے ہاں عورت کو بہت مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے جب کہ آج کے پاکستان میں عورت بہت بدل چکی ہے مگر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمیں وہ دکھانا ہے جس سے ہماری ریٹنگ بڑھے اور عورت کو مظلوم دکھانے سے ہی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا ہے چنانچہ چینلز بھی مجبور ہیں مگر میڈیا پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں میڈیا کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان ٹائمز: آپ کو یاد ہو گا کہ کیسے کیسے سیریل پی ٹی وی نے دکھائے ہیں، مزاحیہ پروگراموں کا بھی ایک معیار ہوتا تھا مگر وہ سب کس قدر بدل گیا ہے؟
لیلیٰ زبیری: جی آپ نے بالکل سچ کہا کہ ایک زمانے میں 50/50، اسٹوڈیو ڈھائی، لوز ٹاک جیسے معیاری مزاحیہ پروگرام آیا کرتے تھے۔ اور یہ کچھ زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے مگر اب تو ہر چینل ”جگت بازی“ میں بازی لے جانے کی کوشش کررہا ہے اور ہم اپنے معیار کو برقرار نہیں رکھ پا رہے۔ اسی طرح ہمارے مارننگ شوز کا معیار بھی توجہ طلب ہے۔ ہمیں بہت ذمہ داری کے ساتھ اپنے معاشرے کو سنبھالنے کے لئے کام کرنا ہوگا۔ ہماری پوری نئی نسل بدل رہی ہے اور مجھے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ عورتوں اور بچوں کے لئے پروگرام ہوتے تھے جن سے خواتین اور بچے اپنے مستقبل کی راہ متعین کرتے تھے مگر وہ سب اب ختم ہو رہا ہے۔ ایک اور چیز جس نے ہمارے عقیدہ کو کمزور کر دیا ہے، جادو ٹونہ ہے، جس کی جانب ہماری قوم تیزی سے گامزن ہے۔ ہمارا اللہ کی ذات پر اعتماد اور اعتقاد دھندلا گیا ہے اور جس کے نتیجہ میں ہم جادو ٹونہ جیسے عملیات کو اہمیت دینے لگے ہیں اور یہ چیز روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہماری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ ہمارے اندر سے خوف خدا ختم ہو گیا ہے، دوسرے ہمارے اندر Self Assissment ختم ہو گیا ہے اور ہر شخص میں Ego آگیا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ آپس میں لڑتے ہیں۔ ٹاک شوز میں گالیاں اور ہاتھا پائی دیکھی جاتی ہے۔ قوم میں احساس ختم ہو چکا ہے۔
پاکستان ٹائمز: آپ جیسے فنکار، انور مقصود، بشری انصاری اور دیگر جو کہ حالات کی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں۔ کیوں آگے نہیں آتے۔ آپ لوگ تو رول ماڈل ہیں؟
لیلیٰ زبیری: ہمارے فنکار آوازیں اٹھاتے ہیں جیسے بچیوں کا ریپ ہوا اور دیگر مسائل سامنے آئے۔ مگر ہر ایک اپنے باﺅنڈریز میں رہ کر کام کررہا ہے جیسے مذہب کے معاملات میں ہم بہت جذباتی ہیں اور کوئی بھی معاملہ ہو اگر دینی مسئلہ سامنے آجائے تو لوگ محتاط ہو جاتے ہیں۔
پاکستان ٹائمز: آپ کینیڈا میں پاکستان کی سفیر ہیں، کیا پیغام دینا چاہیں گی کینیڈین پاکستانیوں کے لئے؟
لیلیٰ زبیری: میرا خیال ہے یہاں کے لوگ پاکستانی ڈرامے بہت دیکھتے ہیں اور پسند بھی کرتے ہیں اور میں یہاں آکر بہت خوش ہوئی اور اپنی پناہ پذیرائی کی بہت مشکور ہوں۔ اپنے ملک سے دور رہنے کے باوجود لوگوں میں اپنے وطن کے لئے بہت فکر اور بہت پیار ہے۔ میں اپنے پیغام میں یہی کہوں گی کہ ”اپنے ملک سے محبت کریں اور اس پروپیگنڈہ میں نہ آئیں کہ پاکستان رہنے کی جگہ نہیں ہے“۔ اکثر لوگوں کو کہتے سنا کہ پاکستان جائیں گے تو سیکورٹی کا مسئلہ ہوگا تو میں یہ کہوں گی کہ ہم وہاں رہتے ہیں، ہماری شناخت میرا وطن پاکستان ہے اور میری ماں ہے۔ وہاں مسائل ضرور ہیں مگر پاکستان کی مٹی کی خوشبو ہی ہماری اساس ہے۔ آخر میں کہوں گی کہ ”اپنے وطن سے پیار کریں“۔
٭….٭….٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں