Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 446

گمشدہ شرمندگی

بطور قوم کیا ہم میں اتنی سی بھی احساس کی رمق ہے کہ ہم شرمندہ ہو سکیں۔ میرا خیال ہے نہیں۔ احساس کو ہم نے بچپن ہی میں قتل کردیا تھا۔ شرمندگی کی بھی کم عمری میں شادی کردی تھی اور وہ کسی دوسرے ملک سدھار گئی۔ ہمارے پاس صرف زندہ لاشیں رہ گئی ہیں۔ برفیلے دماغ احساس سے عاری پتھرائی ہوئی آنکھیں وحشت سے بکھرے بال کسی نا کسی چیز کے ندیدے پن میں منہ سے ٹپکتی رال۔ یہ ندیدہ پن ہر طرح کی بھوک مٹانے کے لئے ہے۔ بازاروں کا چکر لگا کر دیکھو یہ زندہ لاشے جگہ جگہ نظر آئیں گے۔ ان کی بھوکی آنکھیں آپ کو گھور رہی ہوں گی۔ ذمہ دار کسی کو ٹھہرایا جائے یا حکومت کو عوام کو اداروں کو کہیں نا کہیں خباثت موجود ہے جس کے باعث مجرمانہ فعل انجام دیئے جارہے ہیں۔ بچوں کا اغوائ، بچے بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کے بعد قتل۔ احساس مر چکا ہے۔ ضمیر کے بارے میں لوگوں کو علم ہی نہیں ہے، کبھی جاگتا تو معلوم ہوتا کہ ہر انسان کے ساتھ ضمیر ہوتا ہے لیکن لوگ ضمیر سے ناواقف ہیں وہ صرف ایک ضمیر کو جانتے ہیں جو کسی شخص کا نام ہوتا ہے۔ باقی ضمیر کیا ہے کسی کو نہیں معلوم اگر معلوم ہوتا تو صرف پیسے کی خاطر ذلالت کی پستیوں میں خوشحال زندگی نہیں گزار رہے ہوتے۔ زہر بیچنے سے لے کر اپنی عزتیں بیچنے تک سب کام ہوتے ہ یں۔ نوٹ دکھاﺅ اور موڈ بناﺅ۔ فلمیں اور گانے ہی ہمارے معاشرے کو بگاڑتے اور بناتے ہیں اب تو کوئی نا فیصلہ کرنے والا ہے اور نہ ہی احتجاج کرنے والا ہے کہ ہماری فلمیں، ڈرامے، گانے اور خاص طور پر ٹی وی ڈرامے معاشرے کی تباہی میں کیا کردار ادا کررہے ہیں جب تک بازار اپنی مخصوص جگہ پر قائم تھے بھاﺅ تاﺅ بازار کی حد تک تھا اب تو ہر گلی کونے نکڑ اور ٹی وی کی اسکرین پر دستیاب ہے۔ بولو جی تم کیا کیا خریدو گے۔ کہا گیا موٹروے والے واقعہ پر کچھ لکھیں، حیران ہوں کہ کیا لکھوں صفحے پر حیرت اور مذمت لکھوں، اگلے ہفتے موضوع پھر بدل جائے گا۔ حیرت تو ہے مجھے لیکن اس واقعے پر نہیں بلکہ ان حیرت زدہ لوگوں پر جو ہر تھوڑے دن بعد کسی ایک ایسے ہی واقعے پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ لوگ عادی کیوں نہیں ہو جاتے۔ ایک ہفتے، حیرت شور ہنگامہ پھر کسی دوسرے واقعے کا انتظار۔ موٹروے کا واقعہ ہوا۔ لوگوں نے اسے دلخراش واقعے کا نام دیا لیکن اسے دلخراش واقعے کا نام اس لئے ہیں دیا کہ ان کی نظر میں واقعی یہ دلخراش واقعہ تھا بلکہ اسے دلخراش بنا کر اپنی سیاسی مخالفت کی تسکین بھی کرنا تھی۔ انسانیت گئی بھاڑ میں، اس خاتون سے ہمدردی کیوں کی جائے وہ ہمارے رشتہ دار تو نہیں تھی، کیوں کہ اسے لرزہ خیز دلخراش، غیر انسانی حرکت کو سیاست میں استعمال کرنا تھا اور لوگ کررہے ہیں۔ میں شروع ہی سے پی ٹی آئی حکومت اور عمرانخان کے حق میں ہوں۔ سپورٹ بھی کرتا ہوں اس کے باوجود اگر حکومت کی یا کسی حکومتی ادارے وزراءیا کسی بھی اعلیٰ عہدے دار کی بدعنوانی یا کوتاہی سامنے آتی ہے تو میں کبھی اس پر پردہ نہیں ڈالوں گا۔ اگر یہ رویہ تمام لوگ اپنا لیں تو بہت سے مسائل کا حل موجود ہے۔ اب صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں سے وابستگی، دوستی، عہدے اور پیسے کے بل بوتے پر پورے ملک میں بدعنوانی اور جرائم کا راج ہے۔ اور اس صورت حال کی ذمہ داری حکومت اداروں کے علاوہ عام شہریوںن پر بھی عائد ہوتی ہے۔ شاہ رخ جتوئی، شرجیل میمن، ایان علی، عزیر بلوچ اسی طرح پنجاب کے ذمیندار سرمایہ دار سرحد کے خان اور بلوچستان کے سردار ان سب کے آگے ڈھال بن کر عام لوگ کھڑے ہیں جو وڈیرے کو جرم بھی کرنے دیتے ہیں اور اس کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔ جو نا ان کے خلاف احتجاج کرتے ہیں نا ان کی گرفتاری کا مطالبہ پوری طاقت کے ساتھ کرتے ہیں۔ کچھ دن سوشل میڈیا پر شور مچایا پھر خاموش۔ زینب کے قاتل کو پھانسی ہو گئی سب خوش ہو گئے ہم نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ کرکے پھانسی دلوادی۔ ارے کم عقلوں وہ عمران جرائم پیشہ ضرور تھا لیکن اس کے پیچھے کوئی وڈیرہ یا سیاسی لیڈر کوئی نہیں تھا اس لئے اس کے گلے میں پھانسی کا پھندا آسانی سے آگیا۔ بے شمار واقعات ہوئے اور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پولیس اور تمام ادارے بے بس ہیں۔ ہر واقعے میں کسی بڑے آدمی کا رشتہ دار یا وہ خود ملوث ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے جرائم کی پردہ پوشی کے لئے اداروں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو بہت ضروری ہے نا۔ ورنہ جو نظام بن گیا ہے اس میں دراڑ آ جائے گی۔
حالیہ موٹر وے واقعہ کے بعد کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ سی سی پی او عمر شیخ کا جاہلانہ بیان، وہ عورت رات کے وقت موٹر وے پر کیوں گئی، اس کا مطلب ہے موٹر وے محفوظ نہیں ہے تو اسے محفوظ بنانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اگر سی سی پی او تحفظ فراہم نہیں کر سکتے تو اس موٹروے کو رات کے وقت غیر محفوظ قرار دے کر بند کیا جائے یا ایک چوکی بنا دی جائے۔ رات کے وقت غیر محفوظ قرار دے کر بند کیا جائے یا ایک چوکی بنا دی جائے جو کسی خاتون کو تنہا کار میں جانے سے روک دے۔ وہ کہتے ہیں کہ خاتون اسے فرانس سمجھ کر اکیلی نکل گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارا ملک اس قابل نہیں ہے کہ کوئی غیر ملکی یہاں آکر کہیں باہر گھومنے نکلے۔ اپنی کوتاہی ہڈحرامی کو کسی جرم سے متاثر ہونے والے کی ہی غلطی قرار دیا جائے۔ دوسری طرف کچھ جعلی مولانا بھی میدان میں آگئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں انہوں نے کسی خاتون کو باہر اکیلے جاتے نہیں دیکھا۔ کہتے ہیں غیر محرم کے ساتھ باہر نہیں جانا چاہئے۔ چودہ سو سال پہلے جب خواتین کو کام کرنے کی اجازت تھی یہ اسلامی تاریخ ہے تو اس وقت کیا ہر خاتون کے ساتھ ان کا شوہر یا خونی رشتہ ہوتا تھا۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ عورت کسی محرم کے بغیر مسلسل یاک دن اور ایک رات سفر نہیں کر سکتی، اس کا صاف مطلب ہے کہ بغیر محرم کے ایک دن اور رات سے کم مسافت کا سفر کرسکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے حساب سے چورن بیچ رہا ہے۔ کسی نے سیاسی مخالفت کی بناءپر الٹا سیدھا بیان دے دیا، کسی نے مذہبی مخالفت پر اپنی مرضی کی حدیث لگا دی لیکن یہ موٹروے کا کوئی ایک واقعہ نہیں ہے اس طرح کے واقعات کی بھرمار ہو گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑے لوگ جرائم کرکے صاف بری ہو کر باہر آجاتے ہیں جس سے دوسرے لوگوں کو بھی حوصلہ ملتا ہے، پکڑا صرف وہ جاتا ہے اور سزا بھی اس کو ملتی ہے جس پر سے ہاتھ اٹھا لیا جائے یا پھر اس کا کوئی والی وارث نا ہو۔ ان باتوں سے یہ مقصد نہیں ہے کہ جرائم صرف یہاں ہوتے ہیں۔ جرائم ہر ملک میں ہوتے ہیں اور بعض جگہ ہم سے زیادہ ہیں، کئی جرائم میں لوگ پکڑے بھی نہیں جاتے لیکن جو پکڑے جاتے ہیں وہ بغیر کسی رعایت کے سزا بھی پاتے ہیں۔ باہر کے حساب سے ہمارے یہاں جرائم کم ہیں لیکن پکڑے جانے کے بعد ثبوت مل جانے کے بعد بھی رہا ہو جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ دوسرے ممالک کی نسبت ہمارے یہاں کے جرائم بہت زیادہ گھناﺅنی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ مثلاً بچوں کا ریپ اور قتل اور موٹروے والا واقعہ یہ بہت زیادہ غیر انسانی واقعات ہیں جب تک اقرباءپروری، عدالتوں میں رشوت اور تعلقات کی بناءپر فیصلوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی۔ یہ واقعات ہوتے رہیں گے جب تک آپ پولیس اداروں پر بھروسہ کرتے رہیں گے۔ غیر محفوظ رہیں گے اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت خود کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں