تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 603

گھمنڈ

شیر اور گدھے کی کہانی تو سب نے سنی ہی ہوگی۔ ایک جنگل میں شیر اور گدھے کی دوستی ہوگئی۔ گدھے نے شیر کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ ہم مل کر شکار کریں اور پھر بعد میں اپنا اپنا حصہ آپس میں تقسیم کرلںی۔ شیر کے ساتھ گدھا بھی شکار کی تلاش میں نکل گیا۔ کافی عرصہ کے بعد ایک جانور کو شکار کیا، شیر نے اس کے تین حصے کئے اور کہا ایک حصہ تو میرا کیونکہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں، دوسرے کو میں نے شکار کیا ہے وہ میرا حصہ ہوا، تیسرا اگر کسی میں دم ہے تو اٹھا لے۔ یہ فیصلہ سن کر گدھے کو اتنی عقل آگئی کہ وہ خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔ یہ شیر اور گدھے کی داستان ہی نہیں بلکہ بالادستی کی داستان ہے۔ یہ طاقتوں کی داستان۔ یہ گھمنڈ ہے ایک طرز کی سوچ کی داستان ہے جس کے عملی مظاہر دنیا بھر میں جا بجا دیکھنے کو مل رہے ہیں جہاں جس کے پاس قوت ہے اس کے پاس بالادستی کا ہتھیار ہے۔
ابھی تازہ تازہ مظاہرہ بھارت کے انتخابات میں نریندر مودی کی بھرپور اور واضح اکثریت سے کامیابی ہے جس میں ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی تقریباً نوے کروڑ ووٹروں نے انتخابات میں ووٹ کاسٹ کیا اس میں سے تقریباً ساٹھ کروڑ ووٹروں نے مودی کو ووٹ دیا جس میں سے اکثریت ہندوﺅں کی تھی۔ پوری پارلیمنٹ میں تقریباً 25 کروڑ کی مسلم آبادی کے صرف چار ارکان اپنے اپنے مسلم علاقوں سے منتخب ہوئے۔ آج بھارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں پر ہندو ازم کی شدت کی لہر نے وہاں کے سیکولر ہندوستان کی شناخت کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔ بقول نریندر مودی کے کہ اس نے اس سیکولر بھارت کو گنگا میں ڈبو دیا ہے۔ نریندر مودی نے بھارت کے نادر ہندو ووٹروں کو متاثر کرکے ووٹ حاصل کیا۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنے ووٹروں کی خواہشات کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ اس کو اس بات کی بالکل پرواہ بھی نہیں ہے کہ دیگر اقلیتوں کے جذبات اس کے طرزعمل سے کس طرح متاثر ہوں گے کیونکہ اس کو اپنی طاقت اور بالادستی پر بہت گھمنڈ ہے۔ اس طرح کا گھمنڈ اس نے بھارت کے ہندوﺅں کے دماغوں میں بھی بھر دیا ہے وہ قوتیں جنہوں نے ہندوستان کو ایک سیکولر قوت بنانے میں اپنی زندگیاں وقف کردیں وہ دیوار سے لگا دی گئیں جن افراد نے اس کے خلاف آواز بلند کی ان کی آواز کو گلا گھونٹ کر بند کروا دیا گیا۔
جس ہندو ازم کے جن کو بوتل سے باہر نکالا گیا ہے وہ جن اب کسی کے قابو میں نہیں آرہا۔ یہ بالادستی کا جن ایک ایسا عفریت ہے جو سب سے پہلے اپنے مخالف کو نگل جاتا ہے پھر آہستہ آہستہ اپنے حامیوں کو بھی کھا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہٹلر نے پوری قوم کو تباہی کے ایسے راستے پر لگا دیا جس کی نہ صرف خود قوم کو دو حصوں میں تقسیم ہونا پڑا بلکہ دوسری قوموں کو بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہٹلر نے بھی اپنی قوم کے جذبات کو بھڑکا کر جنگ میں جھونک دیا۔ جنگ نے اور یورپ میں مختلف قوموں کے درمیان بڑھ کر نگ عظیم کی شکل میں پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یوں ایک جنونی شخص کی انا ور ضد نے پوری دنیا کے انسانوں کی بڑی تعداد کو لقمہ اجل بنا دیا اور اس طرح یہ جنگ ایٹمی جنگ کی شکل اختیار کرکے ایک ایسے خوفناک تباہی کی طرف لے گئی جس کے اثرات نصف صدی گزرنے کے باوجود اب تک برقرار ہیں یعنی ایک جنونی شخص کی وجہ سے دنیا کو ایک صدی تک تباہی کے اثرات سے گزرنا پڑا۔ اس ہی طرح اسرائیل کی قیادت نے جس طرح سے اپنی قوم کو ایک ایسے راستے پر ڈالا ہوا ہے کہ نصف صدی گزرنے کے باوجود مشرق وسطیٰ میں اب تک امن ناپید ہے آج بھی اس خطے میں کشت و خون جاری و ساری ہے۔ دنیا بھر میں آہستہ آہستہ ایسے افراد برسر اقتدار آرہے ہیں جو کہ لوگوں میں شدت پسندی کے جذبات ابھار کر حکمرانی کی منزل حاصل کررہے ہیں یہی صورت اس وقت نظر میں آئی جب ڈونلڈٹرمپ نے امریکہ کی آبادی کے بڑے طبقے کے لوگوں میں منفی جذبات کو ابھار کر ان سے ووٹ حاصل کئے جس کے تحت اس نے بڑی تعداد میں ان کے ووٹ حاصل کئے اور حکمرانی کی منزل تک پہنچے اس طرح کے حکمراں اس قسم کے ہتھکنڈے اختیار کرکے ایک مدت یا دو مدت تک کے لئے حکمرانی تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اس کے اثرات کافی طویل عرصے تک قائم رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی فوجی حکمراں ضیاءالحق نے بھی اپنے ملک میں شدت پسندی کے حوالے سے اپنا اقتدار طویل مدت تک قائم رکھا ملک میں مذہب کا نام اپنے اقتدار کے لئے استعمال کیا، ان قوتوں کو اپنے ساتھ ملا کر اپنے اقتدار کو طوالت بخشی ان قوتوں نے بعد میں جا کر اتنی طاقت حاصل کرلی کہ وہ ریاست کے لئے ہی خطرہ بن گئے۔ دنیا بھر میں ملک کو دہشت پسندی کا مرکز قرار دیا جانے لگا جب کہ ملک کے اندر ان قوتوں کی وجہ سے بربادی کے ساتھ ساتھ بے پناہ جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا دنیا بھر میں ملک کو دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود خود کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جانے لگا۔ پاکستان نے اس دہشت گردی کی وجہ سے بے پناہ نقصانات اٹھانے کے باوجود دنیا بھر کی ہمدردی حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا۔ اس کے برخلاف بھارت کی پچھلیی حکومتوں نے سیکولر ریاست کے نام پر کشمیر میں بے پناہ مظالم کرکے ریاستی دہشت گردی کا عملی مظاہرہ کرنے کے باوجود دنیا بھر کی ہمدردیاں بھی حاصل کرلیں۔ کیونکہ ان کے ملک میں سیاسی حکومتیں اپنے آپ کو سیکولر ظاہر کرکے دنیا بھر کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب رہی تھیں اس کے برخلاف ہمارے غیر سیاسی حکمرانوں نے ملک میں مذہب کو اپنے مقاصد کے لئے بھرپور استعمال کرکے اپنا اقتدار قائم رکھا مگر ملک کے باہر اس کا منفی استعمال طالبان، کبھی القاعدہ کے نام سے کیا گیا جس کی وجہ دنیا بھر میں اس طرح کی تنظیموں کی وجہ سے اسلام کو بھی دہشت گردی سے جوڑنے میں کامیاب رہی۔ ہمارے ملک میں حکمراں اس قسم کی پالیسیاں استعمال کرکے عوام کے جذبات کو ابھار کر اپنے مقاصد تو کچھ عرصہ تک کے لئے حاصل کرلیتے ہیں مگر اس کے منفی اثرات ملک میں طویل عرصہ تک قائم رہتے ہیں۔ پاکستان تو اس طرح کے تجربے کو اختیار کنے کے بعد اس کے منفی اثرات کو کسی طرح سے اب تک کم کرنے میں کامایب ہوا ہے مگر باقی دنیا بھر میں جہاں جہاں عوام کے ایک طبقے میں منفی جذبات کو ابھار کر حکمرانوں نے جو مقاصد حاصل کئے ان کے منفی اثرات ان کے علاقے میں طویل مدت تک قائم رہیں گے۔ اس لئے بھارت کے عوام کو بھی ان راستوں سے واپسی اختیار کرنا چاہئے جن پر چل کر وقت طور پر تو کچھ عرصے کے لئے فوائد حاصل ہو جاتے ہیں مگر بعد میں ان کو جس طرح کے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا یہ بات بھی وقت ثابت کرے گا اس لئے بھارت یا اس جیسے ملکوں کو شدت پنسدی کا سہارہ لے کر جو کامیابی حاصل ہوتی ہے وہ وقت ہے جس کے اثرات اس کو طویل عرصے تک بھگتنے ہوں گے جیسا کہ پاکستان میں پچھلی غیر سیاسی حکومتوں کی وجہ سے پاکستان کو بے پناہ تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لئے کہ شدت پسندی اور بالادستی کی پالیسیوں کا نقصان بھی بڑا ہوا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں