Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 486

ہدایت

اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لئے بے شمار نبی بھیجے جنہوں نے انسانیت کو فلاح کا راستہ دکھایا ۔اللہ تعالی’ کا پیغام پہونچایا اور جینے کا ڈھنگ سکھایا۔جو بہت زیادہ بگڑے ہوئے تھے ان کو راہ راست پر آنے کی تلقین کی اور نافرمانی کی صورت میں خدا کے قہر اور عذاب سے بھی آگاہ کیا۔ اور آخری نبی کے ذریعے قیامت تک ہدایت کے لئے آخری کتاب بھی بھجوادی کے اب نا کوئی نبی آئے گا اور نا ہی کوئی کتاب۔دنیا اور آخرت میں سرخرو ہونے کے لئے اس کتاب کا سہارہ لینا ہے جس میں دونوں جہاں کی کامیابی کے مکملاصول موجود ہیں۔کوئی شخص اپنی زندگی سکون اور اطمینان سے گزارنے کے لئے تعلیم حاصل کرتا ہے وہ جوکچھ بھی بننا چاہتا ہے اس کے لئے اسے کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کو پزھ کر یاد کرکے وہ تمام امتحانات پاس کرےجن سے وہ اپنی منزل تک پہونچ سکے ۔ اللہ تعالی’ نے زندگی کے تمام امتحانات میں پاس ہوکر آخرت میں سرخرو ہوکر جنّت کی منزل پانے کے لئے بھی کتاب ہی دی ہے۔جو اپنی تعلیمی کتابیں نہیں پزھتااس کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور جو اللہ کی کتاب نہیں پڑھتا اس پر عمل نہیں کرتا وہ بھی آخرت کے لئے کچھ نہیں لے کر جارہا ہے۔اللہ تعالی’ نے ہدایت کے لئے جو بھی نبی بھیجے وہ انسان کی فلاح کے لئے ہی تھے دنیا میں کس طرح رہنا ہے اور کس طرح زندگی گزارنی ہے اور آخرت کے لئے کیا کرنا ہے جن لوگوں نے ان کو جھوٹا سمجھا ان کی بات ماننے سے انکار کردیااللہ کی طرف سے ہدایت کو اہمیت نہیں دیوہ تباہ و برباد بھی ہوئے تاریخ شاہد ہے کہ پوری پوری قومیں اللہ کے غضب کا شکار ہوئیں۔ کئی مقامات پر زمین کو پلٹ دیا گیا اور نافرمان قومیں ہمیشہ کے لئے دفن ہوگئیں صفحہ ہستی سے نام تک مٹ گیا۔جب جب قومیں ہدایت پانے کے بعد بھی اپنے راستے سے ہٹ گئیںاللہ کی نافرمانیاں پھر سے شروع کردیں نا انصافی ظلم و بر بر یت کا بازار گرم ہوانبیوں کے اسباق بھلاکر ظالم جابر حکمرانوں کو سجدہ شروع کردیا زندگی کو گناہ آلود بھی کیا تو اللہ تعالی’ نے ان قوموں پر اپنا عذاب نازل کیااور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اب ہدایت کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گا ہدایت کے لئے کتاب موجود ہےکتاب کھولو پزھو سمجھو عمل کرو اور دنیا اور آخرت کے لئے آسانیاں پیدا کرو منزل پر پہونچنے کے لئے اس ہی کتاب سے راہ تلاش کرو۔ آج کے دور کا انسان نافرمانیوں میں اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے عذاب کا ہی انکاری ہے۔اور غیر مسلموں سے زیادہ تو مسلمان اپنے راستے سے ہٹتے جارہے ہیں۔غیر مسلموں نے مذہب اسلام تو قبول نہیں کیالیکن حیرت انگیز طور پر وہ قر آن شریف سے دنیا کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے مدد لیتے رہے اور مدد لے رہے ہیںوہ یہ کہنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے کے زندگی گزارنے اور معاشرے کو امن پسند بنانے کے بہترین اصول اس کتاب میں موجود ہیں۔اور اب وہ بلا جھجھک یہ بات کہتے ہیں کہ یہ کتابپورے عالم انسانیت کے لئے ہے۔انسانیت کی بھلائی کے لئے ہے تو کیوں نا اس سے استفادہ حاصل کیا جائے۔زندگی گزارنے کے بہترین اصول جو اس کتاب میں موجود ہیں بد قسمتی سےمسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں نے اپنائے ہوئے ہیں۔کئی قانون اس کتاب سے لئے گئے ہیں آج ہر مسلمان کے گھر میں قرآن تو موجود ہے لیکن وہ اسے کھول نہیں رہا ہے اور جب کھولے گا نہیں تو پڑھے گا کیسے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج کے عذاب سے انکاری ہے آج جو کورونا وائرس کی وبائ پھیلی ہوئی ہےیہ بھی عذاب کی صورت ہے عذاب تو ہمیشہ سے ہی آرہے ہیں جب جب خدا کو بھلایا گیا اور اپنی من مانی کی گئی ہے لیکن ہم اسے عذاب ماننے کو تیّار ہی نہیں ہیں پچھلے کئی سونامی ،سیلاب ،زلزلے آئے جن کو مسلمانوں نے کافروں کی سازش قرار دیا گویا اللہ کی طرف سے کسی بھی عذاب کا مکمل انکار کردیا اور موجودہ کورونا وائرس بھی کافروں کی سازش قرار پاگیا ہے ۔یعنی پہلے جو آتے تھے صرف وہی عذاب تھے اور اب آنے والی ہر مصیبت کافروں کی سازش ہے چاہے ان کی ہلاکتیں مسلمانوں سے زیادہ ہوں اگر عذاب اس طرح نہیں آتے تو پھر عذاب کی کیا صورت ہوتی ہےکس طرح سے آتے ہیں کسی کو نہیں معلوم اور نا ہی سوچنا چاہتے ہیں ، اس صورت میں جو پچھلی قوموں پر عذاب آتے تھے تو کیا وہ بھی کسی انسان کی سازش ہوتی تھی کیا وہ بھی عذاب نہیں تھے آج کے زمانے میں ہم یہ تمام باتیں جھٹلانے پر تلے ہوئے ہیں۔ موجودہ وبائ بھی ایک عذاب ہےلیکن اس میں ہدایت بھی پوشیدہ ہے۔زرا غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ مسلمان ہو یا غیر مسلم وہی سب کچھ کرنے پر مجبور ہوگیا ہے جو تقریبا” نوّے فیصد مذہب اسلام میں کرنے کو کہا گیا ہے لیکن جس پر ہم اتنی توجّہ نہیں دیتے ہیں کورونا میں کچھ اس طرح کی ہدایت پوشیدہ ہے۔۔ہر وقت اپنے جسم اپنی صحت کا خیال رکھو صفائی نصف ایمان ہے لہذا ہاتھ منہ دھوتے رہو یعنی وضو کی ایک شکل ہوگئی۔ اپنی طاقت اپنی صحت پر غرور بھی نا کرو مذہب کے مطابق کمزوروں یتیموں غریبوں پر رحم سے پیش آو¿۔کیونکہ ایک معمولی سا وائرس بھی تمھیں ہلاکت میں ڈال سکتا ہے کہ جیسا نمرود کے ساتھ ہوا۔حقوق العباد کا خیال رکھو۔سیل فون نے سگے رشتوں کو اجنبی بنادیا تھا گھر میں رہنے کا ویسے ہی کم موقعہ ملتا تھا اگر تھوڑی دیر کو گھر کے پانچ افراد بھی گھر میں ہیں تو ایک دوسرے سے اجنبی سب اپنے اپنے فون پر جھکے ہوئے ہیں اب زیادہ وقت گھر پر رہنے سے ایک دوسرے کو دیکھنے بات کرنے کا موقع ملا رشتوں کی اہمیت کا اندازہ ہورہا ہے کہ صرف اپنے لوگ ہی اپنے ہوتے ہیں کھانے کی چیزوں میں احتیاط سے کام لیا جارہاہے گویا اس بات پر عمل ہے کہ صرف وہ ہی چیزیں کھاو¿ جو تم پر حلال کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ شائید لوگوں کو یہ احساس بھی دلایا گیا ہے کہضغیف اور کمزور افراد آپ کی توجّہ کے زیادہ مستحق ہیں بڑی بڑی عمارتوں سڑکوں اور تفریح گاہوں سے زیادہ اسپتال اور طبّی سامان کی ضرورت ہےآج بڑے بڑے ترقّی یافتہ ممالک بڑی بڑی عمارتوں سڑکوں تفریح گاہوں کو لئے بیٹھ ے ہیں کچھ کام نہیں آرہا ہے طبّی سامان دوائیوں کی قلّت ہے ایک ملک سے دوسرے ملک بھیجی جارہی ہیں آج اس بات کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا کہ بے شمار حج یا عمرے کرلوشاندار مسجدیں تعمیر کرلو لیکن اپنے پڑوس میںمحلّے میں یا شہر میں غریب نادار مستحق افراد پر توجّہ نا دی وہ بغیر کھانا کھائے سورہے ہیں تو تمھاری تمام عبادتیں بیکار ہیں اللہ چاہے تو تمھاری تمام عبادتیں رکواکرغریب اور نادار لوگوں کی طرف توجّہ دلواسکتا ہے اور آج لوگ غریبوں کی مدد عبادت کی طرح کررہے ہیں نمازیں عادت کی طرح جلدی جلدی پڑھ کر بھاگ رہے تھے اب دل سے دعائیں کی جارہی ہیں یہ بھی احساس ہواکہ تمام لوازمات بیکار ہیں چند سادہ چیزوں کے ساتھ بھی زندگی گزاری جاسکتی ہے یہاں سادگی کا سبق ملا۔ان حالات میں ہونے والی شادیوں کی طرف دیکھیں ہمارے کزن عمر صدّیقی کی شادی ہوئی ملتوی ہونے اور آگے بڑھانے کے بجائے ہمارے اظہر ماموں جن کا وہ بیٹا ہے اور ہمارے چھوٹے عظیم ماموں کی کوشش اور ہدایت پر نہایت سادگی سے شادی انجام پائی۔شادی عام حالات میں بھی سادگی سے ہونا چاہئے۔ یہی ہمارے مذہب اور معاشرے کی ترجیح ہے شادی کی بے ڈھنگی رسموں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ بے پناہ پیسہ خرچ کیا جارہا ہےرسموں کے لئے ہندوو¿ں کی طرف دیکھا جاتا ہے جہاں کسی فلم یا ڈرامے میں کوئی نئی رسم دیکھنے کو ملی فورا” اسے اپنالیا مہندی مایوں کی رسمیں ایسی ہوگئی ہیں کہ جتنا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اتنے میں ایک عام گھرانے میں پوری شادی ہوجاتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کے جن گھروں میں ان فضولیات پر بے انتہا پیسہ لٹایا جاتا ہے تو کبھی یہ سوچا کہ ان رسموں میں آپکے خاندان، محلّے یا جاننے والوں کے وہ بیٹے بیٹیاں بھی شریک ہوتے ہیں جو ایک معمولی گھرانے سے تعلّق رکھتے ہیں جن کے والدین ان کی شادیوں پر اتنا خرچ نہیں کرسکتے ارمان ان کے دلوں میں بھی ہوتے ہیں تو کیا یہ ان بچّوں کی دل آزاری نہیں ہے ان کے لئے دکھ کا احساس نہیں ہے۔ان کے سامنے کپڑوں زیورات اور جہیز کی نمائش ۔۔۔ارے کچھ تو احساس ہو وہ یتیم بچّیاں بھی ہیں جن کی شادی کوئی فلاحی ادارہ یا مخیّر حضرات کراتے ہیں بعض اوقات ایک ہی تقریب میں دس دس شادیاں ہوجاتی ہیں وہ بھی تو سادگی سے ہوتی ہیں کیوں نہیں روایت ڈالی جاتی کہ بیٹی امیر کی ہو یا غریب کی شادی سادگی سے ہونا چاہئے ۔ممکن ہے اس وبائ کے جانے کے بعد لوگوں کے رویّوں میں تبدیلی آجائے اور خان کے نئے پاکستان اور تبدیلی کا خواب پورا ہوجائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں