Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 420

ہمارا کلچر

کچھ پیشے ایسے ہوتے ہیں جن کو ہر معاشرے میں بہت عزّت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ان کی ایک حیثیت ہوتی ہے، ایک وقار ہوتا ہے۔ جج، ڈاکٹر، صحافی، وکیل، یہ لوگ معاشرے کا ستون ہوتے ہیں ایک پر امن معاشرے کو قائم رکھنے میں ان سب کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔معاف کیجئے گا یہ میں دنیا کی بات کررہا ہوں اپنے ملک کی نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں یہ تمام پیشے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں ۔کہ ان کے بارے میں کچھ بھی کہنا بے اثر ہے صرف ہم نہیں ساری دنیا دیکھ رہی ہے اور حیران ہے کہ اس زمین پر ایسی مخلوق بھی رہتی ہے ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک دور تھا جب ہمارے ملک میں بھی یہ تمام پیشے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے نہ کبھی کسی سیاسی معاملے میں ان کا نام آتا تھا نا ہی کوئی اسکینڈل اخبارات کی زینت بنتے تھے اور نا یہ لوگ کسی غلط کام میں ملوّث پائے جاتے تھے اب یہ کسی بھی اچھّے کام میں ملوّث نہیں پائے جاتے آپ زرا اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں کون سا ایسا پیشہ ہے کون سا ایسا سیاست دان یا وزیر ہے کون سا ایسا اعلی’ عہدے دار ہے جس پر آپ بھرورسہ کرسکیں آوے کا آوہ ہی بگڑ چکا ہے یہ بگڑا ہوا نیا پاکستان تو بھٹّو بناکر گیا تھا۔یہ پاکستان بھٹو سے پہلے کا پرانا پاکستان نہیں ہے یہ اس کے بعد کا ہی نیا پاکستان ہے جس کو دوبارہ نیا بنانے کے لئے کپتان میدان میں اترے ہیں۔ اور جب پرانی عمارت کو نیا بنانے کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے یا تو پورا توڑا جاتا ہے یا اس کے کچھ حصّوں کو توڑا جاتا ہے اور اس توڑ پھوڑ میں کچھ لوگوں کا نقصان تو ہوتا ہے۔اور بے شمار لوگ پریشان ہیں کہ اتنی مشکل سے تو حرام منہ کو لگا تھا جو بھٹّو نے نئے پاکستان کو دیا تھا۔جو خون میں بسا ہوا ہے اب سارا خون نکال کر نیا خون کیسے بھریں۔کچھ دن پہلے ڈاکٹروں اور وکیلوں کا ڈرامہ نظر سے گزرا ہے بہت ہی حیرت کی بات ہے یہ لوگ ڈاکٹر اور وکیل کیسے بن گئے۔یہ تو پرانے زمانے والے کنجڑوں اور قصائیوں والی لڑائی ہے نئے زمانے کے کنجڑے اور قصائی تو پھر بھی ان سے بہتر ہیں۔آپ تصوّر کریں کہ اس لڑائی کے بعد دونوں طرف سے احتجاج یہ ہورہا ہے کہ ڈاکٹر اسپتالوں کا بائیکاٹ کررہے ہیں اور وکیل عدالتوں کا ان لوگوں کو زرا بھی احساس نہیں ہے کہ اس کا نقصان سراسر ان غریبوں کو پہونچےگا جو پہلے ہی حالات کے مارے ہوئے ہیں ڈاکٹروں کو کوئی پرواہ نہیں کہ کتنے لوگ بروقت طبی امداد نا ملنے پر جان سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے اسی طرح وکیل حضرات ہیں کہ جن کے وحشیانہ فعل کی وجہ سے یہ سب ہورہا ہے۔پتہ نہیں ان لوگوں نے کہاں سے یہ تعلیم حاصل کی ہے کہ ان کو یہ شعور بھی نہیں ہے کہ ان کی حرکتوں کی وجہ سے نقصان ملک کو پہونچ رہا ہے اور غریب عوام کا بھی نقصان ہورہا ہے۔ سیاسی مافیا نے ان سب کو اپنے قابو میں کیا ہوا ہے۔یہ لوگ بھی سیاسی پارٹیوں کا حصّہ بن چکے ہیں۔یہ لوگ اب وہی زبان بولتے ہیں جو ان کی ساوسی پارٹی بولتی ہے باقی کسی قسم کے احساس سے یہ لوگ عاری ہیں۔کوئی ان کو سمجھانے والا نہیں ہے کہ یہ آپس کی لڑائی کا انجام بہت ہی برا ہونے والا ہے۔ لیکن یہ سب نہیں کریں گے تو سیاست میں حصّہ کیسے ہوگا۔ ہر طرح کی برائیوں دنگا فساد کے بعد بھی نعرہ حبّ الوطنی کا ہی ہے۔کیونکہ یہ تمام کام تو کلچر کا حصّہ ہیں کسی وزیر کے بیان میں اسے کلچر کا نام دینا ایک بڑا المیہ ہے۔ فی زمانہ ہر شخص ہر برائی کو کلچر کا حصّہ کہہ کر نظر انداز کردیتا ہے۔سیاست میں حصّہ لینے کے لئے یا کوئی بھی سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لئے تین چیزوں میں سے کچھ کا ہونا بہت ضروری ہے۔دولت ،بد معاشی،یا پھر کسی اثر رسوخ والے کا سر پر ہاتھ۔اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے کچھ لوگوں کا سہارا لیا جاتا ہے بدمعاشی ہنگامہ آرائی اور پرل سارا الزام مخالف بر سر اقتدار پارٹی کے اوپر لیکن حیرت کی بات ہے کہ ایسے گھٹیا کاموں کو کرنے والے وہ لوگ ہیں جو کبھی معزز ہوا کرتے تھے۔اور ان لوگوں کو آلہئ کار بنانے والے سیاسی رہنما حبّ الوطنی کا ڈھونگ رچائے رہتے ہیں۔محبّ وطنی کیا چیز ہے اور یہ کہاں ملتی ہے آج تک معلوم نہیں ہوا وطن کے لئے لمبی لمبی تقریریں کرنا ،نعرے لگانا اور وطن کے لئے جان بھی دے دیں گے سب کھوکھلے نعرے ہیں عملی طور پر تو یہ لوگ ایسے کام کرتے ہیں کہ وطن کی بنیادیں بھی ہل جائیں جیسے جیسے بد عنوانیاں ،برائیاں بڑھ رہی ہیں لوگ آسانی سے قبول کرتے جارہے ہیں اور اسے کلچر کا ایک حصّہ بناتے جارہے ہیں ہر بڑا عہدے دار بڑی آسانی سے کہہ دیتا ہے یہ تو ہمارے کلچر کا حصّہ ہے۔کچھ عرصہ پہلے ایک بڑے ادارے کے عہدے دار دورے پر امریکہ آئے ہوئے تھے میں نے کہا کہ کسٹمر سروس کے حوالے سے آپ کے ملازمین کا رویّہ بہت خراب ہے پہلے تو ٹالنے کی کوشش کی کہ یہ تو پرانی بات ہے اب بہت تبدیلیاں آچکی ہیں میں نے کہا جب ان ملازمین کی شکایات درج کرانے کی بات ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ لمبی لمبی سفارشوں یا رشوتوں سے آئے ہیں ان کی تو شکایت کرنا بھی فضول ہے اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا اور نا ہی شکایتوں کی ان کو پرواہ ہے۔تو انہوں نے بات ختم کرنے کے لئے کہا جناب یہ سب تو ہمارے کلچر کا حصّہ ہے تب مجھے احساس ہوا کہ کیا ہمارا کلچر اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ آپ کسی بھی برائی کی طرف اشارہ کریں گے تو جواب آئے گا یہ تو ہمارے کلچر کا حصّہ ہے۔وکیلوں اور ڈاکٹروں کی جنگ کلچر کا حصّہ ،سااست دانوں کے جھوٹ بے ایمانیاں کلچر کا حصّہ،رشوت ،چوری دغا بازی کلچر کا حصّہ آخر ہمارا کلچر کیا ہے ہمارا کلچر اب اتنا مسخ ہوچکا ہے کہ جو چاہتا ہے اس پر کوئی برائی چپکاکر آگے بڑھ جاتا ہے اور اسے ختم کرنے کی کوئی بھی بات نہیں کرتا ہے کیوں کہ ہر فرد واحد اس میں اپنا منافع تلاش کررہا ہے ملک کے نام کو استعمال کرکے اپنے اپنے مفادات کا تحفّظ ،خفیہ میٹنگیں ، حصّے بقرے ،اندر ہی اندر عہدوں کی تقسیم ،سیاست میں کرسیوں کاسودا ، وعدے کی بنیاد پر کسی کا سودا نجانے کتنے میں طے پایا ،بند دروازوں کے تمام فیصلے یہ ہے ہماری سیاست کا کلچر۔کلچر کے نام سے اس وطن پر کیا کیا ظلم ڈھائے جارہے ہیں اور وہ بے چارہ سسک رہا ہے ساحل پر بچھی ریت سے ایک مجسّمہ بناتے ہو تھوڑی ہی دیر میں لہریں اس مجسّمے کو بہاکر لے جاتی ہیں کیوں مزاق اڑاتے ہو اس معصوم کا جو اپنی پیدائش سے ہی اپنے ہی لوگوں کی کمان سے نکلے ہوئے تیر کھارہا ہے ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے بھئی یہ بات ہمارے کلچر میں نہیں ہے یا وہ بات ہمارے کلچر میں نہیں ہے لیکن اب حساب الٹا چل رہا ہے آج کل ہر بات ہمارے کلچر کا حصّہ ہوجاتی ہے چاہے وہ کسی اجنبی کلچر سے آئی ہو ہمارے کلچر کی مثال بہت سارے انڈوں کا وہ آملیٹ ہے جس میں شامل انڈوں کے بارے میں نہیں معلوم کے یہ انڈے دینے والی مرغیاں کس قماش کی تھیں بعض حضرات مذہب کو کلچر میں اور کلچر کو مذہب میں ضم کرنے میں بھی ماہرہیں۔بہرحال اس قسم کےکلچر نے ہماری قوم کو کہیں کا بھی نہیں رکھّا ،جج وکیل ڈاکٹر ساہست دان کسی کا بھی اعتبار نا رہا جب رشوت،بد عنوانی سیاسی مفاد کے لئے دنگے فساد کو کلچر کا نام دے دیا جائے تو قوموں کے پاس سوائے ذلّت کے اور کیا رہ جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں