تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 673

ہمارے والد۔۔۔۔۔(فادر ڈے کے حوالے سے ایک خصوصی ادبی تاثراتی تحریر)

لاہور کے بعد کراچی شہر کو بھی اور ادبی مرکز سمجھا جاتا رہا۔ ایک زمانے میں کراچی کی ادبی محفلوں کی دھوم دنیا بھر کے اردو مراکز میں رہی، اس زمانے میں ایک علمی ادبی محفل میں اپنے وقت کے مقبول دوہا نگار اور دانشور جمیل الدین عالی نے والد صاحب کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں دوران خطاب ارشاد فرمایا کہ صبا صاحب بہت خوش قسمت ہیں کہ وہ سعادت مند اولاد رکھتے ہیں۔ یہ بات اس لئے کہی کہ عالی جی ہمارے والد کے علاوہ تمام خانوادے سے بخوبی واقف تھے ہم بھی اس محفل میں سامع کی حیثیت سے موجود تھے اور عالی جی کا بہت احترام بھی رکھتے تھے کیونکہ ان کے سامنے ہمارے بڑے بھی بہت مودب رہتے تھے اورہم تو تھے بھی بہت چھوٹے اور ہماری حیثیت تو بقول ذوالفقار علی بخاری
سگ بادشد برادر خرد نہ باشد
بخاری صاحب بھی احمد شاہ پطرس بخاری کے چھوٹے بھائی تھے۔ عالی جی نے اس موقع پر اس محفل میں ایک طرح سے ہمارے خانوادے کی حوصلہ افزائی میں یہ کلمات ادا کئے تھے لیکن ہم نے ان سے با ادب انداز میں گزارش کی کہ ”عالی جی والد سے زیادہ تو ہماری قسمت اچھی ہے اور ہم زیادہ خوش نصیب ہیں کہ ہمیں اتنا بڑا انسان باپ کی حیثیت سے ملا ہم ان کی خوش قسمت اولاد ہیں ہمیں نہیں اندازہ کے ہمارے والد ہم سے کس شدت کی محبت رکھتے ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمیں اپنے والد سے کس قدر محبت ہے اپنے والد سے محبت کی خاطر ہم تمام بھائی بہنوں میں مقابلہ رہتا ہے کہ کون ان سے زیادہ محبت کا جذبہ رکھتا ہے اور اپنے اپنے طریقوں سے اس کا اظہار کرتا ہے ان کی محبت کا دم بھرنا صرف ان کی اولاد بلکہ اولاد سے وابسطہ شریک زندگی اور ان کے بچے بھی ان کے دیوانے ہیں اور اس میں اپنا اپنا حصہ بھرپور انداز میں ڈالتے رہتے ہیں۔“
ہماری والدہ کے بہن بھائی بھی ان کی محبت کے دعویٰ دار ہوتے ہیں اور اپنے بہنوئی کی عظمت کے گیت گاتے ہیں اپنے آپ کو اس مقابلہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں جو ہم تمام بھائیوں اور بہنوں میں ہر وقت جاری رہتا۔ ہماری نانی اور والد کی ساس تو اپنی بیٹی کے بجائے اپنے داماد کی گرویدہ ان کو درویش کے لقب سے پکارتی جس کا تذکرہ اپنے وقت کے معروف ٹی وی کے پروگرام میں خوش بخت شجاعت نے حضرت صبا اکبر آبادی کے حوالے سے کیا۔ والد کو ہمارے نانا داماد سے زیادہ دوست کی حیثیت سے عزیز رکھتے اور والد بھی ان پر سب کچھ نچھاور کرنے کے درپے رہتے ایک بار نانا نے ہم سب کے سامنے یہ اعلان کیا کہ اگر میں کہوں تو یہ اپنی اولاد کو مجھ پر نچھاور کردیں اور ہم بھی یہ ہی سمجھتے تھے کہ والد اپنی شاعری کو اولاد پر فوقیت دیتے تھے اور شاعری اپنے دوستوں میں بانٹتے رہتے اور شاعری کو ماں کی برابر سمجھنے کا دعویٰ رکھتے۔
اے صبا دل میں نہ ہو کیوں احترام شاعری
شاعری نے تربیت دی ہے ماں کی طرح
حضرت جوش ملیح آبادی نے ان کی زدگوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”صبا صاحب شعر کہنے کی مشین ہیں اور تھا بھی یہ ہی، ان کے قلم سے شعر نکلنے کے لئے بے چین رہتے وہ جس تیزی سے شعر کہتے اس سے زیادہ تیزی سے اپنا کلام تقسیم کر دیتے۔ ایک بار ہماری پٹائی بھی اسی بات پر ہوئی کہ ہم نے ان کے وہ تقسیم ہونے والے لفافے چھپا دیئے جن میں انہوں نے اپنے دوستوں بزرگوں کے لئے کلام رکھا ہوا تھا۔
ہجرت کے موقع پر ان کا بہت سا کلام ضائع ہوا اور اس کے بعد تقسیم میں اس کے باوجود ان جو تمام کلام ہمارے پاس محفوظ رہنے کہ اتنی زیادہ تعداد میں ہے صرف ان کو اس چیز کا امتیاز حاصل ہے کہ اردو شاعری میں کسی ایک شاعر نے اپنے شعر نہیں کہے جتنے کے حضرت صبا اکبر آبادی نے یہ اعلان بھی جمیل الدین عالی نے ایک ادبی محفل میں کیا انہوں نے کہا کہ ان کے رشتہ کے چچا سائل دہلوی نے اردو میں سنتالیس ہزار شعر کہے لیکن صبا اکبر آبادی نے ایک لاکھ سے زیادہ ادبیات غزل کہے جو اردو شاعری میں بہت بڑا امتیاز انہیں حاصل ہے۔ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ ایک وقت دس دس غزلیں بغیر رکے کہتے چلے جاتے ان کا قلم اس وقت شروع ہو کر رکتا تھا جب بیس پچیس شعر کی غزل مکمل ہو جاتی اس کام کے لئے وہ صرف چار یا پانچ منٹ لگاتے۔ مجھے یاد ہے ایک بار حیدرآباد میں ایک مجلس میں مرثیہ تحت الفظ پڑھنا تھا اس زمانے میں کراچی سے حیدرآباد کا ریل گاری سے سفر تین گھنتے میں طے ہوتا تھا اسی شام چھ بجے مجلس کا انعقاد ہونا تھا، والد ہفتہ کے دن دفتر سے فارغ ہو کر تین بجے تک اسٹیشن پہنچے وہاں پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ مرثیہ کا مسودہ گھر پر رہ گیا ہے اپنے ایک دوست کو پہلے ہی گھر روانہ کرچکے تھے اور امید تھی کہ وہ ٹرین کے روانہ ہونے سے پہلے اسٹیشن پہنچ جائیں گے وہ نہیں آئے اور ٹرین روانہ ہوا چاہتی تھی، والد صاحب کے ساتھی گھبرانے لگے کہ اب کیا ہوگا؟ والد تمام ساتھیوں کے ساتھ ٹرین میں سوار تھے اور ٹرین حیدرآباد کی طرف روانہ ہو گئی، والد مسکرائے، تمام دوستوں سے مختلف کاغذ کے پرزے لے کر ان پر ان کی تخلیق کا قلم چلنا شروع ہوا۔ حیدرآباد پہنچے سے پہلے ایک سو بیس بند کا مرثیہ تیار ہو چکا تھا۔ والد صاحب کی آل محمد سے محبت والہانہ اور بہت شدت سے تھی، وہ کہتے تھے
چلا جارہا ہوں راہ حسینی میں
کیا خبر مرضیءخدا کیا ہے
اس ہی شدید محبت کو اس طرح بیان کرتے تھے
ہم عاشقان آلِ محمد ہیں اے صبا
زندہ رہیں گے نام ہمارے فنا کے بعد
پھر وہ بیان کرتے تھے جس سے ان کی محبت کی شدت کا مرکز نظر آتا کہ
دارل اماں یہ ہی ہے مریم خدا کے بعد
ہم کسی کے در پہ جائیں درِ مصطفیٰ کے بعد
ہم تمام بھائی بہن اپنے والد کو پیر کا درجہ دیتے تھے لیکن ان کے مرشد پیر رہنما آقا و موالا اور اپنا محبوب آنحضرت محمد کو سمجھتے تھے۔ وہ نبی کے اتنے زبردست اور شدید محبت رکھنے والے معتقد تھے جس کا اظہار یوں کرتے تھے۔
تم کو ان سے دعویٰ محبت ہے صبا
یہ سمجھ لو کہ محبوب خدا ہیں مصطفیٰ
وہ اپنی محبت کا اظہار زبان اور دل سے ہی نہیں بلکہ اپنی شاعری کی وجہ بھی اس محبت کو قرار دیتے
اے صبا کے قلم رواں رہنا
نعت احمد بڑی عبادت ہے
والد نے ہمارے نبی کی بتائی ہوئی تعلیمات کو اپنے اندر سمونے کی ہمیشہ آخری عمر تک سعی کی۔ رحمت العالمین کی تعلیمات سے محبت کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیا۔ ان کا شعر اس حقیقت کو بیان کرتا ہے
محبت کے علاوہ ہے ہنر کیا
کیا ہے ہم نے اور عمر بھر کیا
وہ ان تمام انسانوں سے محبت کرتے تھے جن میں ہمارے نبی کے اخلاق حمیدہ ہوں، خصوصی طور پر آل محمد سے ان کے داماد علی مرتضیٰؓ سے
کیا اہتمام بارگاہ مرتضیٰ کا تھا
بستر جو رسول کا تکیہ خدا کا تھا
میں والد کے حمدیہ اور نعتیہ کلام سے زیادہ متاثر تھا جس پر ہمارے دیرینہ دوست سلمان حیدر اکثر یہ کہتے کہ ”تم صبا صاحب کو کتنا سنی عقیدہ کا ثابت کرو تم ناکام ہو جاﺅں گے کیونکہ ان کی ساخت ہمارے عقیدے یعنی اہل تشیع کی تھی“۔ ہمارے والد بھی صحابہ اکرامؓ سے بھی بہت محبت رکھتے تھے وہ کہتے
پھول ہی پھول سے آپ کی محفل میں
صبا یہ سوانح کر خوش ہیں کہ خاروں میں ہم بھی ہیں
وہ ان ہستیوں سے بھی والہانہ محبت رکھتے تھے، جن سے ہمارے نبی محبت کرتے تھے۔ ان کی نعتوں میں حمد اور حمدوں میں نعتیں ہوتی، اللہ تعالیٰ کی تعریف یوں کرتے تھے کہ رب کائنات نے اپنی تمام تخلیقات میں سب سے حسین تخلیق حضرت محمد کی تھی۔ رب کائنات کی اس حسین تخلیق کی تعلیمات پر خدا کی وحدانیت پر بھی یقین رکھتے تھے۔
وحدت ذات کی تبلیغ سراپا تم ہو
جس کی ہر لہر ہے توحید وہ دریا تم ہو
وہ اس شہر سے بھی عقیدت رکھتے تھے جو نبی کے نام سے منسوب تھا۔
اپنی منزل تو ہمیشہ سے مدینہ ہے صبا
رُخ کسی اور سمت کرکے چلوں ناممکن
وہ اس مملکت خداداد سے بھی محبت رکھتے جو ان کے نام پر حاصل کیا جس کے لئے انہوں نے اس تحریک کے قائد کو بھی اپنی کتاب زمزمہ پاکستان سے منسوب کیا یہ کتاب تحریک پاکستان کے دوران تقریباً چالیس ہزار کی تعداد میں شائع کی اور جب پاکستان بن گیا تو ان کا ایک شعر اس محبت کو ظاہر کرتا ہے۔
جسے ڈھونڈ رہے تھے وہ خزینہ یہ ہے
دین کی ہجرت ثانی کا مدینہ یہ ہے
ہمارے والد تو سب سے محبت کرتے تھے۔ یہ کیسے ہوتا کہ ہم سے محبت نہ رکھتے ہوں، تقریباً 23 برس ان کو دنیا سے پردہ کئے ہو گیا ان کی محبت اب بھی ہمیں ہر سو نظر آتی ہے۔ ہمارے لئے تو اس محبت نے ایسی رہنمائی کی ہے وہ ہر وقت ہماری مدد اور ہمیں سکون و اطمینان پہنچانے کے لئے رہتی ہے۔ آج کے دور میں اطمینان سکون ناپید ہوتا جارہا ہے وہ ہی اطمینان سکون ہمارے لئے راحت کا سبب ہے یہ ہی ہماری خوش نصیبی کی دلیل ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں