Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 208

ہم سب کا پاکستان

مٹھاس پر جب مکھیاں بیٹھنا شروع ہوتی ہیں تو آہستہ آہستہ مٹھاس کو ڈھک لیتی ہیں۔ بدعنوانی بھی ایک مٹھاس کی مانند ہے۔ لوگوں کا جم غفیر اسے ڈھک لیتا ہے، پھر وہ بدعنوانی نہیں کہلاتی، ہر شخص کا حق بن جاتی ہے اور یہ بدعنوانی نہیں کہلاتی، ہر شخض کا حق بن جاتی ہے اور یہ بدعنوانی اور جرائم اس وقت زور پکڑ جاتے ہیں جب قانون کی گرفت کمزور ہو جائے اور قانون خود بدعنوانی کی طرف مائل ہو اور قانون کی یہ بدعنوانی ایک معمولی سپاہی یا انسپکٹر تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کی جڑیں بہت اوپر تک جاتی ہیں۔ عدالتوں سے مجرم صرف ایک ٹیلی فون کال پر رہا ہو جاتے ہیں، کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ گرفتار ہوتے ہی تھانے سے رہا ہو جائیں لیکن کسی وجہ سے تھانے سے رہا نا ہو سکیں اور عدالت تک پہنچ جائیں تو پھر بھی فکر کی بات نہیں ہے۔ عدالت سے باعزت بری بھی ہو جاتے ہیں۔ صاف و شفاف عدل اس وقت قائم ہوتا ہے جب دل صاف و شفاف ہو۔ خوف خدا ہو، انسانیت ہو، احساس ہو، عدل و انصاف کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی یافتہ یا تہذیب یافتہ نہیں کہلا سکتا بلکہ اس کا رخ پستیوں کی طرف ہوتا ہے اور ایک دن وہ جنگل کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
تاریخ میں دو کردار بہت نمایاں ہیں یا تو بہت ہی ظالم و جابر جیسے چنگیز خان، ہلاکو خان اور دوسرے بہت ہی انصاف پسند اور عادل جیسے نوشیرواں عادل، عدل جہانگیری اور ان کے درمیان کے لوگ سب کچھ کرکے چلے گئے اور ان کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہے اور دنیا کے تمام عادلوں سے بڑھ کر عدل کی مثال حضرت عمرؓ جیسے عادل کی نہیں ملتی۔ روایت ہے کہ راتوں کو سوتے سے اٹھ جاتے اور اس فکر میں ہوتے کہ ان کے علاقے میں اگر کوئی جانور بھی تکلیف میں ہے تو اس کا جواب خدا کے حضور دینا پڑ جائے گا۔ آج کا حکمران خود راتوں کو باہر نکل کر نہیں دیکھ سکتا کیونکہ آج کا نظام عدالتی سزا دینے والے سب کچھ اس دور سے مختلف ہے۔ کسی بھی ملک میں عدلیہ کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس پر پورے ملک کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ عدلیہ اگر کمزور ہو جائے تو ایک دن یہ عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔ انسانوں میں جانوروں سے زیادہ وحشی پن ہے جسے سزا سے دباﺅ سے پابندیوں سے ابھرنے نہیں دیا جاتا اور یہ دباﺅ یہ خوف یہ پابندی عدلیہ کی ذمہ داری ہے لیکن اس وقت جب عدالتوں کے جج سیاسی پارٹیوں سے دور ہوں۔ غیر جانب دار ہوں، کسی کے دباﺅ یا محبت میں گرفتار نہ ہوں۔ بدقسمتی سے ججز کی ایک بڑی تعداد ہمارے ملک میں نا تو غیر جانب دار ہیں نا سیاست سے دور ہیں بلکہ باقاعدہ کسی سیاسی پارٹی کے لئے کام کرتے ہیں۔ انسان چاہے کسی ترقی یافتہ ملک کے ہوں یا غیر ترقی یافتہ ملک کے ہوں، ان کی فطرت ہر جگہ ایک جیسی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک مثلاً یوروپ اور امریکہ کے باسی بہت ایماندار ذمہ دار اور قانون کا احترام کرنے والے ہیں اور اپنے ملک کی محبت میں مہذبانہ اور ایماندارانہ زندگی گزارتے ہیں، نہیں جناب یہ اندر سے ہم سے زیادہ وحشی ہیں لیکن قانون اتنا سخت ہے کہ خوف کے عالم میں ان کا وحشی پن سامنے نہیں آتا اگر ان کے ملک میں ہمارے جیسا قانون ہو جائے تو صرف ایک مہینے میں یہ اپنے ملک کو برابر کردیں۔ اس کی ایک بڑی مثال نیویارک ہے جب کچھ گھنٹوں کے لئے شہر کی لائٹ چلی گئی، سارے کیمروں نے کام کرنا بند کردیا، پولیس کا اور پکڑے جانے کا خوف ختم ہو گیا تو وہ تاریخی لوٹ مار ہوئی ہے جس کی مثال نہیں ملتی، تمام اسٹور توڑ کر برابر کردیئے گئے، اسی طرح لاس اینجلس میں بھی ہوا لیکن چونکہ قانون بہت سخت ہے اور اس پر عمل درآمد بھی سختی سے ہوتا ہے۔ انصاف کی وجہ سے ہر آدمی کو تحفظ حاصل ہے اس وجہ سے ان لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں ہے جو پرامن زندگی گزارتے ہیں۔ وحشیانہ جرائم ان ملکوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن اپنی حدود میں ہوتے ہیں اور عام آدمی اس سے متاثر نہیں ہوتا۔ قتل کی وحشیانہ وارداتیں ہوتی ہیں جس کی وجہ شراب نوشی ہے، بہت زیادہ نشہ ہونے سے ذہن سُن ہو جاتا ہے اور قانون کا خوف یاد نہیں رہتا۔ ذہن انجام سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ عدلیہ اگر اپنا فرض ذمہ داری سے فیصلے نا کرے، جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ چرچل نے کیا خوب کہا تھا جب تک ہماری عدالتیں انصاف مہیا کررہی ہیں، ہمارے ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ عدلیہ کے معاملے میں ہمارے یہاں حکومت اور عوام ایک دوسرے کی ضد میں رہتے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ حکومتی عدالتیں انصاف مہیا نہیں کرتی ہیں جب کہ حکومت کا خیال ہے کہ عوام قانون کا احترام نہیں کرتے لیکن سوال یہ ہے کہ کون سا قانون کس پر لاگو ہوتا ہے، ایک عدلیہ کے منصف نا ہونے سے پورے معاشرے پر اثر پڑتا ہے اور آج کل عدالتوں میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس پر الزام ہے اس کی حیثیت کیا ہے۔ کیا کسی بڑی سیاسی پارٹی کا اس پر ہاتھ ہے یا کوئی با اثر شخصیت ہے، پھر چاہے وہ قاتل ہی کیوں نا ہو، اسے بچانے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔
عدل تو زندگی کے ہر شعبے میں ہونا چاہئے، تعلیم ہی کو دیکھ لیں، ہمارے یہاں تعلیم کا معیار نہایت ہی پست ہے، اس کی وجہ کالج، یونیورسٹی میں داخلے کھلے عام رشوتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں یا پھر بہت ہی تگڑی سفارش ہو۔ اس جگہ قانون اندھا ہے، اسے کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے، کیوں کہ اس بدعنوانی میں انصاف مہیا کرنے والے خود ملوث ہیں، کیونکہ ان کی اولادوں کو بھی داخلہ لینا ہوتا ہے۔ عام طور پر عدالتوں میں ایک مجسمہ رکھا ہوتا ہے جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی فیصلے میں دیکھ بھال کر فیصلہ نا کرو، آنکھوں پر پٹی ہے صرف وہی کرو جو کان میں سرگوشی کی جارہی ہے اور ترازو تو ویسے بھی خرید و فروخت کا نشان ہے۔ تمام سیاست دانوں کے وعدے روٹی کپڑا اور مکان ہے۔ بجلی نہیں جائے گی، پانی ملے گا، روٹی ملے گی، کوئی یہ نہیں کہتا کہ انصاف ملے گا اور جب انصاف ملے گا تو عوام کو سب کچھ مل جائے گا لیکن انصاف کون مہیا کرے، آج کل ججز کا جو تماشہ بنا ہوا ہے، کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، جو کبھی ایک معزز عہدہ سمجھا جاتا تھا ہر کسی کا ججز کی عزت کرنا گویا ایک فرض تھا لیکن ان ججز نے عدالتوں کی اور اپنی بھی مٹی پلید کرلی ہے۔ ملک میں کوئی بھی سچا اور ایماندار نہیں رہا۔ سیاست دان جھوٹے، ججز جھوٹے، میڈیا والے جھوٹے، یہی ہے اس کی شان۔ ہم سب کا پاکستان۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں