Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 304

یمن

یمن دنیا کے نقشے پر ایک قدیم عرب ملک کی حیثیت سے موجود ہے۔ اس کے شمال میں سعودی عریبیہ اور شمال مشرق میں اومان واقع ہے۔یہ عرب کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ یمن اس وقت بہت ہی برے حالات سے گزررہا ہے۔اس وقت غریب ترین ملک ہے اور بد نظمی کا دور دورہ بھوک اور افلاس سے اب بھی بے شمار لوگ ہلاک ہورہے ہیں۔
افغانستان میں ڈرامائی حالات پیدا ہونے کی وجہ سے یمن کی بربادی کی خبریں میڈیا کی سرخیاں بننے سے محروم ہیں۔ یمن اس وقت دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران سے گزررہا ہے جہاں 2015 سے اب تک خانہ جنگی جاری ہے جو کہ حوثی قبائل اور سعودی عرب کی قا?ئم کودہ کٹھ پتلی حکومت کے درمیان ہے۔تباہ کن حالات ہیں جن کے سدھرنے کی کو ئی سبیل نظر نہیں آتی۔ حوثی جنہیں انصار اللہ بھی کہا جاتا ہے ان کی تحریک 1990 میں شروع ہوئی جو کہ طویل عرصے سے اقتدار پر براجمان صدر علی عبد اللہ صالح کے خلاف تھی۔یہ تحریک زیدی شیعہ افراد نے شروع کی جس میں سنّی افراد بھی شامل تھے اس کے علاوہ یہ تحریک زیادہ تر حوثی قبائل کے لوگوں پر مشتمل تھی اور ان کے لیڈر حسین بدر الدین حوثی تھے۔یمن کے صدر علی عبد اللہ صالح کی حکومت میں حزب اختلاف نے بھی ان کے خلاف ایک بڑا احتجاج کیا صدر صالح پر یہ الزام تھا کہ ان کو سعودی عرب اور امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے جو ان کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کررہے ہیں اس کے علاوہ ان پر بدعنوانی کے بھی الزامات تھے کہ یہ غریب عوام کی دولت لوٹ رہے ہیں۔ اس احتجاج میں انصار اللہ یعنی حوثی بھی حزب اختلاف میں شامل ہوگئے۔بعد میں یہ احتجاج شدّت اختیار کرتا گیا اور 2004 میں یمنی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں تحریک کے سربراہ حسین بدر الدین مارے گئے۔
اس کے بعد تحریک کی کما نڈ بدر الدین کے بھائی عبد الملک الحوثی کے ہاتھ آگئی۔ 2011 میں عرب اسپرنگ کے دوران یمن کے سب سے بڑے شہر صنعاءمیں مظاہرے ہوئے جو کہ بہت شدّت اختیار کرگئے مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ صدر صالح فوری طور پر استعفی’ دیں لیکن صدر صالح نے مظاہرین کو کچلنے کے لئے اپنی افواج سے مدد لی جس کے نتیجے میں بے شمار مظاہرین ہلاک ہوئے اس کے بعد حالات قابو سے باہر ہوگئے مظاہرین کی تعداد بزھتی گئی یہاں تک کے یمن کے سب سے طاقتور قبیلے ہاشد قبائل فیڈریشن کے سربراہ صادق الاحمر نے بھی مظاہرین کے ساتھ شامل ہونے کا اعلان کردیا اور پھر یہ مظاہرے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گئے۔اس خانہ جنگی میں بموں اور میزائل کا کھلے عام استعمال ہوا صدارتی محل میں ایک بم دھماکے کی وجہ سے صدر صالح زخمی ہوگئے اور علاج کے بہانے سعودی عرب فرار ہوگئے۔ ان کی غیر حاضری میں نائب صدر منصور ہادی نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔ 2012 میں متحدہ عرب امارات میں ایک معاہدہ ہوا جس میں یہ طے پایا کے یمن میں الیکشن کرائے جائیں۔الیکشن ہوئے اور اس میں منصورہادی جیت گئے کیونکہ اس الیکشن میں منصور ہادی کے مقابل کوئی امیدوار نہیں تھا لہذا منصور ہادی بلا مقابلہ جیت گئے لیکن انصار اللہ کے ساتھ ساتھ سابق صدر صالح نے بھی منصور ہادی کی حکومت کو ماننے سے انکار کردیا جو کہ اس وقت سعودی عرب میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ وقت سے فائدہ اٹھانے کے لئے صدر صالح نے منصور ہادی کی حکومت گرانے کے لئے نہایت چالاکی سے پرانی دشمنی بھلاکر انصار اللہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھادیا۔ جسے انصار اللہ کی جانب سے قبول کرلیا گیا۔ نئی حکومت اور اس کے آئین سے انکار کرتے ہوئے دو سال مظاہرے جاری رہے اس کے بعد انصاراللہ اور ایران کے حامی گروپس نے حکومت ہٹانے کے لئے ایک بھرپور مظاہرہ کیا جس میں سابق صدر صالح کے وفادار فوجیوں نے بھی ساتھ دیا اور وہ انصار اللہ کے ساتھ مل گئے ستمبر 2014 کو انصار اللہ اور ان کے حامیوں نے دار الخلافہ صنعاءپر قبضہ کرلیا۔اس کے بعد منصور ہادی کی حکومت اور انصار اللہ کے درمیان مخلوط حکومت بنانے کا معاہدہ ہوا ۔لیکن یہ معاہدہ بھی دیرپا ثابت نا ہوسکا ۔منصور ہادی اور ان کے وزرائ کو نظر بند کردیا گیا اور ان سے استعفی’ لے لیا گیا اور انصار اللہ نے اپنی حکومت کا اعلان کردیا ۔ایک مہینے کی نظر بندی کے بعد منصور ہادی عدن روانہ ہوگئے اور وہاں جاکر اپنے استعفی’ سے پھرگئے اور عدن کو یمن کا عارضی دارالخلافہ بنانے کا اعلان کرکے یمن میں دوبارہ حکومت بحال کرنے کے لئے اور دنیا کو دکھانے کے لئے سعودی عرب سے مدد مانگی جو کہ شروع ہی سے اندرونی طور پر مدد کررہا تھا۔ اس کے بعد یونائیٹیڈ نیشن کی سیکیوریٹی کونسل کو پیغام بھیجا کہ سعودی عرب کو اس کی مدد کرنے کی اجازت دی جائے۔سعودی عرب نے آس پاس کی ریاستوں کو ملاکر یمن پر فضائی حملے شروع کردئیے ان حملوں میں سعودی عرب کے پاس 100 جنگی ہوائی جہاز اور ڈیڑھ لاکھ زمینی افواج تھی۔ سعودی عرب نے فوری طور پر 4 سے 5 لاکھ یمنی ملازمین کو اپنی سرزمین سے بے دخل کردیا ۔سعودی عرب کے ساتھ مصر،مراکو،اردن ،سوڈان ،متحدہ عرب امارات،کویت ،قطر ، اور بحرین شامل تھے ایک بے انتہا غریب ملک پر چاروں طرف سے چڑھائی کردی گئی۔ اسلحے اور ٹھکانوں کی نشاندہی کے لئے امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔سعودی عرب کے 100 جہازوں کے علاوہ متحدہ عرب امارات کے 30 کویت کے پندرہ بحرین کے پندرہ قطر کے دس اردن کے 6 مراکو کے 6 اور سوڈان کے 4 جنگی طیارے شامل تھے یہ سب ایف /اے 18 تھے جبکہ مصر پہلے ہی 4 جنگی آبی جہاز بھیج چکا تھا۔ پہلا فضائی حملہ 21 اپریل 2015 کو ہوا مسلسل فضائی حملوں سے دو شہر مکمل طور پر تباہ ہوگئے لاکھوں افراد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ہلاک ہوگئے 36 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے۔بے شمار اسپتال اور اسکول ان فضائی حملوں میں تباہ ہوگئے۔2015 سے 2018 تک 85 ہزار بچے غذائی قلت اور بیماری سے ہلاک ہوچکے تھے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر جنگی جرائم کا الزام بھی عائید کیا ہے۔اور یمن کی آبادیوں پر فضائی حملوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اس وقت یمن کے حالات ابتر ہیں امن کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔غربت بھوک افلاس اور قحط بھرپور انداز میں یمن پر طاری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں