Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 470

میں نے ملک کیوں چھوڑا

چونکہ لوگ اس نقل مکانی کو ملک چھوڑنے کا نام دیتے ہیں لہذا میں بھی یہی الفاظ استعمال کررہا ہوں۔ نا انصافی، معاشی مجبوریوں اور حق و انصاف کی بات کہنے کی اجازت نہ ملنے پر ملک سے دوری کا فیصلہ کیا لیکن ملک کو چھوڑا نہیں ہے وہ آج بھی دل میں بسا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان جہاں پیدا ہوتا ہے، بچپن، جوانی جہاں گزارتا ہے ایک خاص ماحول میں تربیت پاتا ہے، چاہے وہ اچھا ہو یا برا لیکن اسے بھلا نہیں سکتا لیکن یہ صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن میں احساسات ہوں، رشتوں اور معاشرے کی اقدار سے واقف ہوں، شعور بھی رکھتے ہوں، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو انسان تو ہیں لیکن احساس سے عاری نہ رشتوں سے کوئی لگاﺅ نہ وطن کی اہمیت سے واقف بس اپنے آپ میں مگن کھاﺅ پیو اور سو جاﺅ۔ کسی بھی انسان میں اس طرح بے حس ہونا بڑی عجیب سی بات ہے، وہ صرف اس شخص کو جانتےہیں جو ان کو نوکری دے رہا ہو، پیسے دے رہا ہو اور اپنے کھانے پینے کا آسرا صرف اسی سے رکھتے ہوں، اس طرح کی صفات انسانوں میں کم لیکن جانوروں میں زیادہ ہوتی ہیں جو اپنا نجات دہندہ اور کھانے پینے کا وسیلہ صرف اپنے انسانی مالک کو سمجھتا ہے اور اسی کے پیر چاٹ رہا ہوتا ہے۔ میں نے یہاں امریکہ میں ایسے لوگ دیکھے ہیں جو امریکہ کو اسی انسانی مالک کی طرح سمجھتے ہیں، وہ امریکہ کی ذرا سی برائی بھی نہیں سننا چاہتے اور کہتے ہیں ہمیں امریکہ نے ہی سب کچھ دیا ہے۔ نعوذباللہ شاید خدا پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ کھانا ملنے پر پیر چاٹنا جب کہ انسان تو ایسے جانور سے بہت بالاتر ہے۔ بہرحال میں یہ کہہ رہا تھا کہ انسان اس جگہ کو کبھی نہیں بھولتا جہاں وہ پیدا ہوا، پلا بڑھا، میں ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جو ہندوستان کے ایک علاقے سے ہجرت کرکے ہندوستان کے اس علاقے میں ہجرت کر گیا جسے پاکستان کا نام دیا گیا۔ پاکستان بننے اور یہاں آنے کی خوشی کے ساتھ ساتھ ان والدین کو ان بزرگوں کو اپنی جائے پیدائش اپنا گھر محلہ اور شہر چھوڑنے کا دکھ بھی تھا جہاں ان کا بچپن اور جوانی گزری۔ اس دکھ کا احساس ہمیں بچپن میں نہ ہو سکا کیوں کہ ہماری پیدائش پاکستان بننے کے کافی عرصے بعد ہوئی البتہ ہم اپنے بزرگوں کے ہندوستان سے متعلق قصے بڑے شوق سے سنتے تھے۔ لیکن ان قصوں کے پیچھے چھپے غم کا احساس نہ ہو سکا۔ یہاں آکر کچھ عرصہ گزارنے کے بعد نئی جگہ کی خوشی کافور ہوچکی تھی اور اس کی وجہ اپنے ہی لوگوں کے رویے تھے۔ جس ملک کے بارے میں انہوں نے سوچا تھا وہ ان کی سوچ سے بہت مختلف نکلا۔ یہ ملک تو انگریز اپنے وفاداروں کے حوالے کرگیا تھا ان کے نظام اور نا انصافی نے نہ صرف یہاں ہجرت کرکے آنے والوں کو بلکہ سات پشتوں سے یہاں رہنے والے غریبوں کو بھی مایوس کیا۔ ہمارے بزرگوں نے مہاجر پناہ گزین اور نہ جانے کیا کیا سنا لیکن ان کو پھر بھی امید بندھی تھی کہ ان کی اولادیں جو یہاں پیدا ہوں گی ان کو ضرور حق لے گا۔ اور یہاں پیدا ہونے کی وجہ سے وہ اپنی جگہ بنالیں گے۔ کتنے سادہ اور معصوم لوگ تھے کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ ہندوستان کے اس حصے پر جسے پاکستان کا نام دیا گیا وہ لوگ قابض تھے جن کو انگریزوں نے اپنی وفاداری کے صلے میں جاگیریں ہی نہیں پورا پاکستان حوالے کردیا تھا۔ ہم باہر سے آئے تھے لیکن یہاں تو انصاف ان کو بھی نہیں مل سکا جن کے باپ دادا اسی حصے میں پیدا ہوئے تھے۔ چاہے ان کا تعلق پاکستان کے کسی بھی صوبے سے ہو۔ جاگیرداروں، زمین داروں، سرداروں اور وڈیروں نے پورے پاکستان کو اپنے قبضے میں لیا ہوا تھا اور آج بھی وہی اور ان کی اولادیں راج کررہی ہیں۔ نا انصافی پاکستان کے تمام غریب عوام کے ساتھ ہوئی اور ان کو غلام ہی سمجھا گیا۔
حکمرانوں کی زیادتوں ان کی اولادوں کی عیاشیوں اور لوٹ مار نے پورے معاشرے کا بیڑ غرق کردیا ہر شخص صرف بے ایمانی سے پیسہ بنانے کی فکر میں لگ گیا۔ بچپن سے جوانی تک یہی باتیں سنتے رہے کہ بجلی کیسے چوری کرتے ہیں، چیزوں میں ملاوٹ کس طرح ہوتی ہے، ہر جائز و ناجائز کام کے لئے رشوت ضروری ہے، غیر قانونی کاغذات کس طرح بنتے ہیں اور زمینوں پلاٹوں پر ناجائز قبضہ کیسے ہوتا ہے، دنیا کے نقشے پر کئی ملک ابھرے اور وہاں کے حکمرانوں نے قانون بنانا سیکھے، شہر بنانا سیکھے اور ہمارے حکمرانوں نے صرف اُلوّ بنانا سیکھا۔ بہرحال جب میں نے تعلیم سے فارغ ہو کر عملی زندگی کی طرف قدم بڑھانا چاہا تو معلوم ہوا کہ نہیں تمہارے لئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ تمہارے پاس ڈومیسائل صرف شرمندگی کا سرٹیفکیٹ ہے۔ نہ کوئی تگڑی سفارش ہے، نہ پیسہ اور نہ ہی تمہارے پاس کوئی اپنا صوبہ ہے۔ بہت کوشش کی، کرپٹ نظام کے خلاف آواز اٹھائی، قلم کا سہارا لیا تو جان کے لالے پڑ گئے، پرخلوص لوگوں کا فقدان تھا اور افراتفری میں سب کو اپنی پڑی تھی۔ لہذا ہر طرف سے مایوس ہو کر ہوائی جہاز میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا اور دیار غیر کو سدھارے، کئی مرتبہ ملک سے باہر گیا، پھر واپس آیا لیکن کچھ نہ بدلا لہذا امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ آج نیا بھر میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ مشرق وسطیٰ، یورپ، افریقہ، امریکہ غرض ہر جگہ پاکستانی آباد ہیں۔ ان میں تعلیم یافتہ ہیں اور غیر تعلیم یافتہ بھی، غریب گھرانوں سے بھی تعلق ہے اور متوسط طبقے کے لوگ بھی ہیں اور کچھ امراءبھی ہیں لیکن یورپ، امریکہ اور کچھ ممالک میں بسنے والے افراد وہ ہیں جن سے ان کے اپنے معاشرے نے جینے کا حق چھین لیا تھا اور وہ دل برداشتہ ہو کر دوسرے دیس سدھار گئے، تعلیم حاصل کرنے والے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی نوکریوں سے محروم تھے اور چھوٹے گاﺅں، شہروں میں رہنے والے ظلم سہتے سہتے ملک ہی چھوڑ چلے۔ باہر ممالک جا کر ان لوگوں کو وہ سب کچھ ملا جس کی ایک انسان خواہش کرسکتا ہے۔ امریکہ میں رہنے والے افراد کے بچے جو یہاں پیدا ہوئے یا بہت کم عمری میں آگئے تھے وہ اپنے والدین سے پاکستان کے بارے میں اسی طرح سنتے ہیں جس طرح ہم سنا کرتے تھے، فرق یہ ہے کہ یہ بچے پاکستان جا سکتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ بچے وہاں کے رسم و رواج اور قدرتی نظاروں کو بہت پسند کرتے ہیں لیکن یہ ایک وطن کی طرح وہاں سے محبت نہیں کرسکتے۔ حب الوطنی کا جذبہ پاکستان کے لئے اس لئے نہیں ہو سکتا کہ یہ لوگ یہاں پیدا ہوئے ہیں ان کا وطن یہ ہے، یہی ان کا ملک ہے اور ان کو وہ تمام حقوق مل رہے ہیں جو ایک پیدائشی شہری کو ملتے ہیں۔ جب کہ ہم پاکستان میں پیدا ہو کر بھی اجنبی رہے۔ اس کے باوجود ہم پاکستان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں، ہمیں اپنے ملک سے نہیں بلکہ وہاں کا نظام وہاں کا قانون بنانے والوں سے شکایت ہے۔ ہم اپنے ملک کو ہر لمحے یاد رکھتے ہیں لیکن جب اوریا مقبول جیسے لوگ کہتے ہیں کہ باہر رہنے والوں کو پاکستان کی فکر کرنے اور محبت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ ہم ان پاکستانیوں کی طرح نہیں ہیں جو امریکہ آکر اپنی اوقات بھول گئے ہیں اور پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں جب امریکہ کو اپنا وطن بنا لیا ہے۔ پاکستان سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تو وہاں کے معاملات میں تبصرہ کرنے کا حق بھی نہیں ہونا چاہئے۔ ہم پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں