بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 350

I Can’t Breathe

یہ وہ الفاظ ہیں جو حال ہی میں گورے پولیس والوں کے تشدد کے نتیجہ میں جارج فلائیڈ کے منہ سے ادا ہوئے یا ایرک گارنر سے وابستہ ہوئے اور یہی کالوں کی تحریک کا سلوگن بن گیا۔ آج امریکہ جل رہا ہے اس کی ریاستوں میں مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکہ کی ریاستوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور سڑکوں پر فوج گشت کررہی ہے۔ امریکہ کی فوج آج اپنے ہی شہریوں کے اوپر بندوق تانے کھڑی ہے۔ وہ امریکہ جس کے ہر سلوگن میں یہی ہے کہ ہم رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کرتے۔ نہ جانے کہاں آگیا۔ گوروں اور کالوں کی تو تفریق ہمیشہ سے رہی ہے اور گوروں نے کالوں کو ہمیشہ غلام ہی سمجھا ہے۔ امریکہ میں سول رائٹس موومنٹ سے قبل جس کا سہرا مارٹن لوتھر کنگ کے سر جاتا ہے۔ 13 سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد کالوں کے حق میں کچھ قوانین بنے جس کے نتیجہ میں کالوں کو امریکہ میں سانس لینے کا موقع ملا۔ 1955ءسے 1968ءتک جاری رہنے والی یہ موومنٹ اس وقت اختتام پذیر ہوئی جب 14 اپریل 1968ءکو امریکہ کی ریاست ٹینسی میں مارٹن لوتھر کنگ کو قتل کردیا گیا مگر مارٹن لوتھر کنگ کی اس تحریک کے نتیجہ میں کالوں کے لئے امریکہ میں ملازمتوں کے دروازے بھی کھلے اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کے رائٹس کو بھی تسلیم کیا مگر گوروں کا ایک طبقہ آج بھی رنگ و نسل کی بنیاد پر ان سے نفرت کرتا ہے اور آئے دن کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی ریاست میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، جن سے گوروں میں دبی نفرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ گوری اور کالی رنگت کا فرق صرف امریکہ تک محدود نہیں، کینیڈا بھی ایسے واقعات کی آماجگاہ ہے۔ جہاں اسکولوں میں پڑھنے والے کالے بچوں پر پولیس تشدد اور اسکول اسٹاف کی جانب سے نفرتوں کے واقعات کا سب کو علم ہے۔
افریقین کینیڈین لیگل کلینک ایسی ہی ایک تنظیم ہے جو کینیڈا میں سیاہ فام کے حقوق سلب کئے جانے کی مخالف ہے اور محافظ ہے ایسے لوگوں کی جنس، رنگ و نسل کی بنیاد پر نفرتوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ کینیڈا میں بھی کئی ایک بچوں کو کالے ہونے کی بنیاد پر اسکولوں سے برطرف کیا گیا اور ان کی تعلیم میں رکاوٹیں بھی ڈالی گئیں۔ یہی حال مسلمان ملکوں میں بھی رہا۔ سعودی عرب آج بھی عرب اور غیر عرب کے درمیان نفرتوں کی گود میں یہاں تک آگیا۔ آج بھی بدوﺅں کو دوسرے اور تیسرے درجہ کے شہری کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ان سے بیگار لیا جاتا ہے جب کہ ہمارے نبی آخری الزماں کا آخری خطبہ ہی اس پیغام پر محیط تھا کہ ”کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی مہاجر کو انصار پر یا کسی انصار کو کسی مہاجر پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور سب بھائی بھائی ہیں“ مگر چشم فلک نے دیکھا کہ ہم نے سب کچھ بھلا دیا۔ حتیٰ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو تقسیم ہند کے بعد اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد لارڈ ماﺅنٹ بیٹن تو چلا گیا مگر اپنے خلیفہ ہندوستان اور پاکستان میں چھوڑ گیا۔ پاکستان میں بھی گوری چمڑی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور تمام گورے رنگ کے لوگ، کالے رنگ کے لوگوں کو کمتر سمجھتے ہیں۔ یہی تفریق تھی جس کے سبب بنگالی بھائیوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ وطن بنگلہ دیش بنا لیا کیونکہ ہم نے مسلم بھائیوں کو جو کہ ہمارے کلمہ گو تھے، حقیر جانا اور انہیں ان کے ناموں سے پکارنے کے بجائے انہیں بنگالی کہہ کر بلایا اور ان سے اپنے بوٹ پالش کرواتے رہے۔ نتیجہ آج وہ ہم سے الگ ہو کر عزت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی معیشت بھی ہم سے بہتر ہے۔ ہم پاکستانیوں نے یہاں بس نہیں کی بلکہ پھر ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کو کم تر درجہ کے شہری سمجھ کر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ گھروں میں گھس گھس کر ماﺅں اور بہنوں کے سامنے ان کے جگر گوشوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا۔ متحدہ قومی موومنٹ کا تحفہ دے کر پورے کراچی کو یرغمال بنا لیا جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے پروڈیوسر بھی ہمارے یہی بوٹ بردار تھے۔ جنہوں نے گوروں کی گود میں پرورش پائی اور خود کو دیگر قومیتوں سے افضل جانا یعنی اگر وردی بدن پر آگئی تو وہ افضل ہونے کی ضمانت بن گئے اور باقی تمام بلڈی سویلین کہلائے اور یوں پاکستان میں بھی ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جاتے رہے۔ آج کے پاکستان میں بھی گورے کالوں کو کمتر سمجھتے ہیں، امیر غریب کو اپنی جاگیر گردانتے ہیں مگر یہی فرق ہے مسلمان ملکوں اور یورپی ممالک میں کہ یہاں پوری قوم آج یک جان دو قالب ہو کر سراپا احتجاج ہے اور دنیا کی سپرپاور کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں مگر اسلامی ممالک میں کسی کی مجال نہیں کہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکے۔ ہمارے یہاں تو لوگ خود کو کوڑیوں کے مول بیچنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ خواہ وہ میڈیا ہو، عدلیہ ہویا عام شہری۔ سب بکنے کے لئے تیار ہیں، زبانوں کی بنیادوں پر ایک دوسرے کو کٹتا اور مرتا دیکھ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق سلب کررہے ہیں اور نہ کوئی ڈر ہے نہ خوف، اس لئے کہ طاقت کا سرچشمہ صرف اور صرف فوج ہے جسے چاہے چشم فلک میں آسمان پر پہنچا دے اور جسے چاہے پلک جھپتکے میں زمین بوس کردے۔ بے پناہ اختیارات کی مالک جس نے خود کو کبھی فلسطینیوں کے قتل کے لئے بیچا تو کبھی روس کے خلاف امریکہ کی جنگ میں کود کر دولت کے انبار اکھٹے کئے۔ ملک کے اقتدار پر قابض ہونا اپنا حق اس لئے سمجھا کہ جب قربانی ہم نے دینی ہے تو پھر اقتدار بھی ہمارا ہو گا جو ہماری مانے گا وہی حکمران ہو گا اور زندہ بھی رہے گا وگرنہ ہمارا انکاری دنیا بھر میں کہیں چلا جائے ہم زندہ درگور کردیں گے۔ یوں آج حکومت تو سویلین نظر آتی ہے مگر چلانے والے باوردی ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو وردی میں ہیں وہ بھی حکمران اور جو ریٹائرڈ ہیں وہ بھی ملک کے تمام اداروں پر قابض۔ کوئی نہیں جو منہ کھول سکے۔ جو بولا وہ ملک کا غدار قرار پایا۔ یوں آج پاکستانی عوام کا پاکستان نہیں بلکہ فوج کا پاکستان بن چکا ہے یعنی یہاں بھی فوج کا کردار گوروں والا ہے اور پاکستان کی عوام کالی اور گھٹیا نسل کی ہے۔ یوں آج پوری دنیا اس تفریق کے خلاف کھڑی ہو چکی ہے۔ کاش کہ ہمارا ایمان بھی جاگ جائے اور ہم بھی اپنے بچوں اور نئی نسل کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف گھروں سے نکل کھڑے ہیں اور اس وقت تک گھر واپس نہ جائیں جب تک اپنے حقوق سلب کرنے والوں کا احتساب نہ کرلیں۔ یہی وقت ہے کہ ظلم و جبر کے خلاف باہر نکلیں، اور اس فرد اور ادارے کا احتساب کریں جو حب الوطنی کے نام پر اپنے ہی ہم وطنوں کے اوپر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے سے باز نہیں آرہا۔ ہمیں کالوں کی اس تحریک سے سیکھنا ہو گا اور لینا ہو گا حساب اپنے ملک میں بیٹھے قاتلوں سے جو حب الوطنی کا لبادہ اوڑھ کر عدلیہ، میڈیا، فوج اور حکومتی مشنری میں بیٹھے ہیں۔ جنہوں نے عوام کے اصل نمائندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور خود کو شریعت کے خول میں لپیٹ کر مستقل پاکستانی عوام کا خون چوس رہے ہیں۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں