کسی سے بات کیجئے! 346

معاشرتی معذوری اور معذور افراد

بہت سال پیچھے جاو¿ں تو یاد آتا ہے چوک کے پاس پرچون کی دکان کے باہر بندھی ہوئی میری ہی عمر کی اک لڑکی۔ گندے کپڑے، میلا حلیہ، چیخیں مارتی ہوئی، یہاں سے وہاں بھاگنے کی بے چین کوشش میں ناکام۔ اس گھر کے باقی بچے تو کھلے پھرتے تھےتو پھر وہ کیوں اس طرح بندھی ہوئی تھی۔ ظلم اور سفاکی جیسے الفاظ میرے ذہن کی سلیٹ پہ ابھی تک ابھرے نہیں تھے۔ سلیٹ اس لئے کہا کہ اس وقت سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت صرف سلیٹ تک ہی محدود تھی۔ کاپیوں سے تعارف نیا نیا تھا “انکل وہ آپ کی بیٹی ہے” دوکان سے ٹافیاں بسکٹ لیتے ہوئے میری نظر اس پر ہی تھی۔ انکل چپ۔۔ “انکل اسے کھول دیں وہ بھاگنا چاہتی ہے” انکل نے ایسا گھورا کہ مجھے بھاگنا پڑا۔
پھر چند چہرے ایک جیسے جو ہمارے پرانے محلے میں اور نئے محلے میں ایک جیسے ہی تھے۔ پتہ نہیں کیوں۔ شاید دو چہرے ایک جیسے ہوں۔ لیکن جب کنیڈا آئی تو معلوم ہوا کہ یہ متعدد چہرے ہیں ایک ہی جیسے۔۔۔
“وہ پاگل کی ماں کپڑے سیتی ہے” اور اس پاگل کا چہرہ بھی ویسا تھا۔۔۔۔ یہاں سے شروع ہوتا ہے ہمارا معاشرتی رویہ ان افراد کیلئے جو ذہنی یا جسمانی طور پرکسی معذوری کا شکار ہیں کہ لوگ انھیں ان کے نام کی بجائے ان کی معذوری سے پکارتے ہیں اگر پاکستان کے ماحول کے تناظر میں دیکھا جائے تو باقی ماندہ مجموعی رویوں کی طرح ادھر بھی مایوس کن حالات ہیں۔
مغربی ممالک ان افراد کو سب سے زیادہ vulnurable کیٹیگری تصور کیا جاتاہے اور ان کی حفاظت کی ذمے داری مکمل طور پر ریاست اپنےسر پر لیتی ہے
معذور افراد کی بھی مختلف اقسام ہیں ایک بہت پیاری ڈاکٹر دوست سے میں پوچھ رہی تھی کہ تم اس بارے میں کیا کہتی ہو اس نے بہت سے مسائل بتائے جو میرے لئے بالکل نئے مگر بہت تکلیف دہ تھے۔ جسمانی معذوری ، ذہنی معذوری، کچھ مریضوں میں دونوں طرح کے مسائل پائے جاتے ہیں جو کہ شروع سے ماں باپ کیلئے ایک چیلنج ہوتے ہیں۔
بچے پہ کیا گزرتی ہے یہ جاننے کیلئے انتہائی حساس دل چاہئے لیکن ایسے بچوں کے والدین کو جن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے عام والدین اس کا اندازہ تک نہیں لگا سکتے۔ یہاں مائیں عام بچوں کو سنبھالتے ہوئے پریشان رہتی ہیں اور جن ماو¿ں پہ خدا نے یہ ذمہ داری ڈالی ہے ان کی زندگی محض گھر اور اس بچے تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے دونوں والدین کو بچے کی دیکھ بھال میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے بچوں/مریضوں کے ہر دن کے الگ مسائل ہوتے ہیں جو کہ یہ کسی کو بتا بھی نہیں پاتے جس کی وجہ سے ان کے اندر اینگزائیٹی اور سٹریس جیسے مسائل پیدا ہوتے رہتے جن کو سلجھانا بہت مشکل ہوجاتا ہے
اکثر سکول میں سپیشل بچوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے مجھے احساس ہوتا ہے کہ ان میں سے بہت سارے بچے انتہائی ذہین ہوتے ہیں مگر ان کی دیگر معذوریوں اور مسائل کے آگے ذہانت ماند پڑ جاتی ہے
انگلش میں لفظ”اسپیشل” استعمال کر کے بھرپور ہمت اور عزت دی گئی اوراردو میں”معذور” استعمال کرکے ان کی خوبیوں پر پردہ ڈال کے محض ان کی معذوری کو ہاءلائٹ کردیا گیا۔ وسائل کی ہمواری کا رونا ادھر کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور جب بات آتی ہے پڑھائی، بلوغت کے مسائل۔ نوکریوں اور شادیوں کی تو یہاں بھی ان افراد کے ساتھ ہر جگہ زیادتی ہوجاتی ہے۔ ان افراد کے ساتھ کوئی بھی غیر انسانی رویہ کر کے آسانی سے بچ نکلتا ہے۔ مغربی ممالک تک میں ایسے بچوں کو ڈے کئیر کی سہولیات بہت مشکل سے میسر آتی ہیں اور بے بی سٹر ایسے بچوں پر تشدد تک کرتی پائی گئیں۔ اور پاکستان میں ایسے افراد جو کسی کو اپنا مسئلہ بیان بھی نہیں کر پاتے اکثر گھروں کے اندر ہی ذہنی ، جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور کوئی پرسانِ حال نہیں ان کا۔ ذہنی و جسمانی کمزوریوں کی وجہ سے ان بچوں کئلئے سنِ بلوغت کسی چیلنج سے کم نہیں۔ ماں باپ کیلئے الگ مشکل شروع ہوجاتی ہے جنھیں پہلےہی اتنی مشکلات کا سامنا رہتا ہے وہ پوری طرح اپنے اردگر کے ماحول سے کٹ کے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں شاید کبھی یہ صورتحال بہتر ہو تو ایسے افراد کو بھی انسان تصور کیا جانے لگے۔زندگی کے وسائل کے تمام دروازے ان پر اتنے ہی اعتماد سے کھل سکیں جتنا دوسروں پہ کھلتے۔ کم سے کم یہ اپنے پیروں پہ کھڑے ہوسکیں۔ ان کے جسمانی و ذہنی مسائل کے ساتھ ساتھ ان کے جذباتی اور نفسیاتی پہلاو¿ں پہ بھی غور کیا جاسکے۔ اور لوگوں کا معاشرتی رویہ مجموعی طور پر ان کی طرف بہتر ہو۔ اب بات کرتی ہوں مغربی ممالک خصوصاً کینیڈا کی۔ یہاں پر جسمانی کمزوریوں والے بچوں کو پوری ایک الگ سے مکمل سہولیات والی گاڑی لینے اور چھوڑنے آتی ہے یہاں تک کہ جب ان کے اترنے کا وقت آتا ہے تو عام بچوں کو وہاں سے گزرنے سے بھی منع کر دیا جاتا ہے تاکہ یہ لوگ اپنا ٹائم آرام سے لے سکیں۔ ایسے بچوں کو گورنمنٹ کی طرف سے ٹریننگ اور صفائی والی نرسیں دی جاتی ہیں۔ ان کا سکول الگ نہیں کیا جاتا تاکہ یہ خود کو دوسروں سے دور محسوس نہ کریں بلکہ ان کیلئے سہولیات سے لبریز کلاس روم بنائے جاتے ہیں جہاں پر ایک ٹیچر صرف ایک یا دوبچوں کو دیکھتی ہے۔ ان کے سکون والے کھلونے ساتھ رکھے جاتے ہیں جو ان کے مشکل والے اوقات میں سکون کا بادث بنتے ہیں۔ ان کے کلاس رومز اس قدر زبردست ہوتے ہیں کہ الگ ہی چھوٹی سی دنیا آباد نظر آتی ہے۔ گھروں میں بھی نرسز آتی ہیں۔ مغرب میں انسان کو انسان ہی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ہماری کمیونٹی کے لوگوں کے رویے ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ امید ہے کہ سپیشل افراد کے مسائل میں ہر لحاظ سے کمی آسکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں