کسی سے بات کیجئے! 137

ڈرامہ سیریل ”دراڑ“ کا تجزیہ

پاکستانی ڈرامہ ہمیشہ سے ڈھکے چھپے کردار دکھا دکھا کے ہمیں کسی اور ہی یوٹوپیا میں لے جاتا رہا ہے پر کچھ کریکٹرز ایسے آتے ہیں جنھیں ہم برسوں بھول نہیں پاتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم معاشرے میں اس کردار کو ایکسپٹ نہیں کر پارہے ہوتے لیکن زندگی کی بھیانک گلیوں میں ایسے کردار بھٹکتے ہوئے نظر آجاتے ہیں۔ مصباح نوشین خود اتنی پیاری ہے کہ اس نے مرد کے اتنے بھیانک روپ کو ایسے خوبصورت شوکیس میں سجایا کہ بحیثیت ایک عام عورت مجھے ڈرامے کے ہیرو شہیر احمد کی حرکتوں پہ غصہ آنے کی بجائے ہنسی آتی رہی۔ پہلے ان باتوں سے شدید گھن آتی تھی مصباح کا شکریہ اس نے گھن والے تکلیف دہ جذبات کو محض اینٹرٹینمنٹ میں بدل دیا۔یہ لکھنے والے کا یہی کمال ہوتا ہے کہ وہ اپنے انتہائی نیگیٹیو کریکٹر کیلئے عوام کی ہمدردی جیت سکے جیسے کچھ عرصہ پہلے نیٹ فلیکس کی ایک دو سیریز ”you“ اور ”Dark Desires“ میں آخر تک ہیرو کا اعلیٰ کردار برقرار رکھا جاتا ہے اور دل یہی چاہتا ہے کہ ہیرو برا نہ ہو مگر اصل زندگی کے حقیقی کرداروں کی طرح ٹریجڈی اور ڈاو¿ن فال ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ یونہی لکھتے لکھتے مجھے پیراڈائیز لاسٹ کا سیٹان بھی یاد آگیا جسے پڑھتے پڑھتے مجھے بھی اس کی شان اور سچائی پر یقین ہوچلا تھا کسی زمانے میں کبھی کبھی تو لگتا تھااصل ہیرو سیٹان ہی ہے۔
اصل زندگی بھی ایسے ہی کرداروں سے بھری پڑی ہے اور ہمارا المیہ کہ ہم آخری وقت تک چاہتے ہیں کہ یقین رکھیں کہ سب ٹھیک ہے ہمارا اچھا گمان سلامت رہے ، یقین کی آبیاری ہوتی رہے تو ٹریجڈی اور ڈاو¿ن فال کے ہوتے ہوئے بھی ہم کئی بار گرتے سنبھلتے رہتے ہیں۔ اور شہیر احمد کی بیوی معصوم ارحا ( اس اتنے مشکل نام کیلئے میں مصباح کو خصوصی داد الگ سے دوں گی ) جسے ہر اچھی والی بیوی کی طرح اپنے شوہر کی وفا پہ پورا یقین ہے جسے اتنا تک اندازہ نہیں ہوتا کہ شہیر کی وفا اور شہر کی ہوا کب کس سمت ہوجائیں کوئی پتہ نہیں چلتا۔
مصباح نے ہیرو کے کیریکٹر کو اتنا مضبوط بنایا ہے کہ وہ ہر سچویشن کیلئے مکمل فٹ رہتا ہے اسکے جھوٹ میں کہیں جھول نہیں۔ اتنی پرفیکٹ کریکٹرائزیشن کیلئے یقیناً رائیٹر تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے بیوی کے ساتھ ساتھ ہر کسی کو مکمل مطمئن اور سیٹ رکھا ہوا ہے اور کسی ایک کو بھی خبر نہیں کہ وہ کسی کے بھی ساتھ نہ سچا ہے نہ مخلص۔ شاید ہر مرد ایسا ہی ہے یا اندر سے ایسا ہے ضرور۔ باہر والے ملمع اترتے چڑھتے رہتے ہیں۔ نفسیات کی رو سے دیکھیں تو ایسے لوگ سائیکالوجیکلی اپ سیٹ بھی ہوتے ہیں اسی لیے کسی نامکمل جذبے کی تسکین کیلئے بھی یہ سب کرتے ہیں اور ان کا ذہن اتنا سٹرانگ نہیں ہوتا کہ غلط صحیح میں تمیز کرسکے۔ ابھی ڈرامہ چل رہا ہے سسپنس قائم ہے دیکھتے ہیں مصباح اسے کہیں سائیکالوجیکلی اپ سیٹ قرار نہ دے دے۔
خیر یہ موصوف اتنے امیر ہیں کہ اس تشنگی کے علاوہ شاید ہی ان کی زندگی میں اور کوئی تشنگی ہو سو وہ مکمل مطمئن ہیں ہر طرف سے۔
آج سے چند سال پہلے میں نے ایک ڈرامے میں سالی بہنوئی کے افئیر کے سین دیکھے تو یقین ہی نہیں آیا کہ ہمارے ہاں رشتوں کا تقدس اس حد تک کم ہوگیا ہے لیکن مصباح نے ایک انتہائی تکلیف دہ حقیقت کو اتنے سکون سے نبھایا ہے کہ آج کل کے تیز اور اخلاقی اقدار سے ماورا دور میں واقعی غلط اور صحیح کے درمیان کی پتلی سی لکیر مٹتی جارہی ہے۔ لوگ کسی کا حق مار کے ، زیادتی کرکے ، برائی کرکے برا محسوس تک نہیں کرتے جیسا کہ ارحا کی کزن۔ مرد لائی لگ ہوتا ہے ادھر ادھر ڈولتا رہتا ہے۔ عورت کو مضبوط ہونا پڑتا ہے اور معاشرہ انہی مضبوط عورتوں کے سروں پر چل رہا ہے ارحا ایک مضبوط اور محنتی لڑکی دکھائی گئی تو شہیر احمد نے اس کی مضبوطی کا یہ اچار ڈالا کہ وہ اس کا گھر، اس کے ساتھ بزنس اور گھر سنبھالے سو مضبوط اور ذہین عورتوں سے مرد محبت تو ویسے بھی کر نہیں پاتے ہو بھی جائے تو ان کی ذہانت سے خائف ہوکے محبت گھر کے فرنیچر کی طرح پرانی ہوجاتی ہے ، نیا فرنیچر ایڈ ہوتا جاتا ہے۔
ڈرامہ کا پلاٹ شاندار ہے بس چینل نے تھوڑا کھینچ زیادہ دیا ہے اب دیکھتے ہیرو کا ڈاو¿ن فال کدھر ہوتا ہے خیر میری بریک ختم ہوگئی ہے اور اس سے ہہلے کہ میری لیکچرر صاحبہ میری مینٹل سٹیٹ میں کوئی نقص تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں ، پورے دل سے “دراڑ “ کی ساری ٹیم کو، اپنی شرارتی سی دوست مصباح کو ایک بار پھر اتنے شاندار اور جاندار ایشو کو سامنے لانے پر مبارکباد کے ساتھ ساتھ بہت ساری نیک تمناو¿ں سمیت امید کرتی ہوں کہ اپنے اگلے ڈرامے میں مصباح اپنی آڈئینس کی حیرانیاں ایسے ہی برقرار رکھیں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں