ایک پاکستانی جوڑا جس کا تعلق پنجاب سے ہے ایک وکیل کے دفتر میں کسی کیس کے سلسلہ میں جاتا ہے، کیس پر بات چیت کے دوران بارہا یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارا تعلق پنجاب سے ہے اور ہمارا تعلق فوج سے ہے، موصوف خود کو فوج کا ریٹائرڈ جنرل بتاتے ہیں، ان کی اہلیہ بھی نہایت رعونت کے ساتھ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر نے ساری زندگی پاکستان کو سرو کیا ہے۔ پاکستان کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ وکیل کے ایک اہلکار ان سے سوال کر بیٹھتے ہیں کہ یہ بتائیے کہ آپ لوگوں نے پاکستان کی کیا خدمت کی ہے؟ پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمہ داری تو فوج ہی پر عائد ہوتی ہے جس کے جواب میں خاتون اس نوجوان سے سوال کرتی ہیں کہ آپ کا پاکستان سے کہاں سے تعلق ہے۔ جواب ملتا ہے کہ میں کراچی سندھ سے تعلق رکھتا ہوں۔ کرنل صاحب کی اہلیہ برجستہ کہتی ہیں کہ اچھا تو آپ ”بھیا ٹائپ“ ہیں۔ یہ جملہ سن کر یہ نوجوان ششد رہ جاتا ہے کہ کس قدر حقارت کے ساتھ ”بھیا ٹائپ“ کا یہ جملہ اور کتنی آسانی سے ایک پنجاب کے پاکستانی نے کراچی سندھ کے پاکستانی سے کہہ دیا۔ یوں تو یہ ایک عام سا واقعہ ہے مگر اگر آپ اس کی گہرائی میں جائیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہم پاکستانیوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے کس قدر نفرت اور حقارت ہے۔ کس طرح زبان اور علاقہ کی بنیادوں پر اس خوبصورت ملک کینیڈا کو بھی پراگندہ کیا جارہا ہے۔ آپ اپنے اردگرد غور کیجئے تو آپ کو ایسی ذہنیت رکھنے والے بڑی تعداد میں نہ صرف نظر آئیں گے بلکہ گروپنگ کرتے دکھائی دیں گے۔ انہی میں دولت کے پجاری چند ”بھیا ٹائپ“ بھی ان کے اردگرد جمع نظر آئیں گے۔ جن کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف پیسہ ہے اور یہ اس قدر مفلس اور غریب ہیں کہ ان کے پاس پیسہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ نہ تو اخلاق ہے اور نہ کردار۔ پیسہ بھی ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو یاد آتا ہے کہ متحدہ پاکستان سے قبل مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو بھی پنجاب میں نام سے بلانے کے بجائے ”کالا بنگالی“ کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ اپنے بنگالی ملازمین کو حقارت سے دیکھا جاتا تھا، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، آج وہ کالے بنگالی دنیا میں عزت و شرف حاصل کرچکے ہیں اور بنگلہ دیش پاکستان کے مقابلہ میں ثقافتی، سیاسی اور معاشی طور پر ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے ہماری نظروں کے سامنے ہے اور ہمارے ملک میں جوتوں میں دال بٹ رہی ہے۔ ہمارے حکمران اور ہماری کرنسی دنیا بھر میں ذلت و رسوائی کا سامنا کررہے ہیں۔ مگر ہم اپنا فیصلہ آج بھی درست نہ کرسکے، ہم آج بھی اپنے ہی ملک میں رہنے والے ایک خطہ کے افراد کو ”بھیا ٹائپ“ کہہ کر تسکین حاصل کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم اب مزید پاکستان کی تقسیم کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ خطہ جہاں ”بھیا ٹائپ“ قوم آباد ہے، پورے ملک کا خرچہ اٹھا رہی ہے۔ پاکستان کے دیگر صوبہ اپنی رہی سہی معاشی صورتحال کو اسی ”بھیا ٹائپ“ خطہ کی مدد سے پورا کررہے ہیں مگر ہماری رعونت اور تکبر کا یہ عالم ہے کہ ہم آج بھی خود کو دیگر قومیتوں کے مقابلہ میں افضل سمجھتے ہیں۔
بڑا بھائی پنجاب اپنے بڑے بھائی کو بنگالی کہہ کر بے دخل کرنے کے بعد دیگر چھوٹے بھائیوں پر حملہ آور ہے، مگر اب صورتحال اور حالات مختلف ہیں۔ جب بنگلہ دیش بنا تو سوشل میڈیا اس قدر فعال نہ تھا اور نہ ہی پاکستانی عوام بشمول پنجاب کے لوگ سچائی جانتے تھے مگر آج کا پنجاب بدل چکا ہے۔ وہاں کے عوام یہ جانتے ہیں، یہ باتیں کیوں کی جاتی ہیں، کون کرتا ہے، اور اس کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں، چنانچہ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ آج کے پاکستان میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ہمیں باہمی اتحاد اور یگانگت کی کس قدر ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو حقیر ناموں سے بلانے اور پہچاننے کی بجائے ہمیں بھائی چارے کو فروغ دینا ہوگا۔ یقیناً پاکستان میں ذہنی طور پر پسماندہ اور گھٹیا سوچ رکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، مگر ہمیں ایسے افراد کو سخت الفاظ اور انداز میں سرزنشن کرنا ہوگی تاکہ ہماری آنے والی نسل میں یہ زہر منتقل نہ ہو سکے اور ایسے گھرانے جنہوں نے اپنے بچوں کے رشتہ پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی اور ”بھیا ٹائپ“ (مہاجر) بن کر نہیں بلکہ پاکستانی اور مسلمان بن کر کئے ہیں وہ کسی مشکلات کا شکار نہ ہوں اور یہ عصبیت کہیں ان بچوں کے مستقبل کو تاریک نہ کردے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم ملک سے باہر صرف اور صرف پاکستانی ہیں اور فخریہ پاکستانی بن کر سوچنا چاہئے۔ اپنی پاکستانی نیشنل لینگویج سے محبت کرنا چاہئے اور باہمی روابط کو مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھانا چاہئے کہ اس میں ہمیں نئی نسل کی بقاءاور بہتر مستقبل پوشیدہ ہے۔
