بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 267

انوکھا لاڈلا

دنیا بھر میں گھومے، امریکہ کے کئی شہروں میں گئے، جہاں جہاں امریکہ کے سابق صدور نے اپنے دور میں لائبریریاں تعمیر کیں اور جہاں آج بھی نوادرات اور قیمتی تحائف شیشوں کے پیچھے سجے دکھائی دیتے ہیں جن کے نیچے میزبان ملک کے سربراہ کا نام درج ہوتا ہے حتیٰ کہ امریکہ کی خاتون اوّل دور اقتدار میں جو لباس زیب تن کرتی رہی ہیں، وہ بھی آپ کو نمائش کے لئے رکھے دکھائی دیں گے۔ یہ ان ممالک کے صدور کی شاخسانہ ہے کہ سپرپاور ہونے کے باوجود ان کی اپنی ذات تمام کرپشن سے مبرا پائی جاتی ہے۔ ان کی سادگی عوام کے سامنے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باراک اوباما بھی وائٹ ہاﺅس چھوڑنے کے بعد اپنے بجٹ میں اپنے لئے اچھا گھر تلاش کرنے کی تگ و دو کرتے رہے۔ یہ وہ سربراہان مملکت ہیں جن سے ایک ملاقات کے لئے یا جن کی ایک کال کے لئے ہمارے حکمران منتظر رہتے ہیں مگر یہ مغربی حکمران نہ کلمہ گو ہیں اور نہ ان کی گردنوں میں سریا ہے۔ یہ عوام سے گھل مل کر رہتے ہیں اور سادگی سے زندگی گزارتے ہیں۔ حقیقت میں تو انہی نے ہماری اسلامی روایات کو آگے بڑھایا ہے جب کہ ہم صرف باتوں ہی کی حد تک رہ گئے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ وہ عمران خان جو کنٹینر پر کھڑا ہو کر صبح شام لوگوں کو عوام میں ننگا کرتا رہتا تھا۔ سب کچھ بھول کر اسی ڈگر پر رواں دواں ہے۔ جن پر ہمارے ماضی کے پاکستانی حکمران گامزن تھے۔
آج عدالت کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو دیئے گئے ”صادق و امین“ کے لقب پر سوالیہ نشان لگا نظر آتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ یہ تحائف جو دنیا بھر کے سربراہان مملکت کو دیئے جاتے ہیں وہ سرکاری حیثیت میں دیئے جاتے ہیں اور انہیں توشہ خانہ میں رکھوایا جاتا ہے۔ ہاں جو تحائف سربراہان رکھنا چاہیں تو اس کی کل مالیت کا 30 فیصد ادا کرکے وہ یہ تحائف رکھ سکتے ہیں مگر ان تحائف کی تفصیل فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سابقہ نواز شریف حکومت نے تحائف کو ڈکلیئر نہیں کیا گیا، امکان تھا کہ عمران خان جو کہ ایماندار، صادق اور امین ہیں کیونکہ اس معاملہ کو ایک مثال بنائیں گے مگر وہ عمران خان جنہوں نے نواز شریف کو چور، بھگوڑا اور کرپٹ کے القابات سے نوازا خود ان کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی کا مستقل راگ الاپنے والے عمران خان کو قانون کے دائرے میں کون لائے گا۔ کون حاکم وقت کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرکے ان سے سوال کرے گا کیونکہ انوکھا لاڈلا تو اب تک ان قوتوں کی آنکھ کا تارا ہے جو انہیں لے کر آئے تھے اور انہیں بے لگامی کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسکرپٹ لکھنے والے آج تذبذب کا شکار ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کررہے ہیں مگر یوں محسوس ہورہا ہے کہ اس بار ان کے گرد شکنجہ تنگ ہے اور مشکلات بڑھتی اور حالات کنٹرول سے باہر ہوتے دکھائے دے رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں