یہ اسکول کے بھاری بستے۔۔۔ 146

اک گوہر انمول۔۔۔ فلم ڈائریکٹر حسن عسکری

پاکستانی فلمی صنعت کے نامور ہدایت کار ، مصنف اور فلمساز ، نگار، گریجوئٹ اور بولان ایوارڈ یافتہ حسن عسکری بھائی کو پاکستان فلمی صنعت میں کام کرتے ہوئے 52 سال ہو گئے۔اِن کو ایک طرف تو اپنے شعبے کا ماہر بھی مانا جاتا ہے لیکن کتنی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں انہیں کبھی اعلیٰ ترین سول اعزاز صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی سے نہیں نوازا گیا۔اِن کے کام کی عوامی سطح پر بھی پذیرائی ہوئی اور سرکاری طور پر بھی دو تین مرتبہ نیشنل فلم ایوارڈ دیا گیا۔ کوئی ایسی سماجی اور ثقافتی تنظیم نہیں جس نے انہیں نہ سراہا ہو لیکن میں خود یہ ہر سال سوچتا ہوں کہ فلم ڈاریکٹرحسن عسکری بھائی ہمارے ملک کے نامور ہنرمند ہیں انہیں صلہ ملنا چاہےے۔ انہوں نے صاف ستھری فلمیں بنائی ہیں جیسے اردو فلم ”سلاخیں“ (1977)، ”دوریاں“ (1984)، ”بےقرار“ (1986)، ”تےرے پیار میں“ (2000)، ” کنارہ “(1982)، ” جنت کی تلاش “ (1999) وغیرہ۔اِن فلموں کو عوام نے پسند کیا اور ان فلموں نے بہت بزنس بھی کیا۔ ۔
عسکری بھائی نے ” خون پسینہ “ (1972) جیسی با مقصد پنجابی فلم سمیت کئی پنجابی فلمیں بھی بنائیں جیسے احمد ندیم قاسمی صاحب کے افسانے ©’ گنڈاسہ ‘ پر بننے والی پنجابی فلم ” وحشی جٹ “ (1975)۔پھر ” میلہ “ (1986) اور ” بسنتی “ (2008)۔ انہوں نے جنوری 2021 میں فلم ” تیرے پیار میں “ میں تحریکِ آزادیِ کشمیر کو اجاگر کیا گیا۔فلم ” جنت کی تلاش “ قائدِ اعظم رحمةاللہ کے دو قومی نظریہ کے بارے میں ہے۔ فلم ” سلاخیں “ وکٹر ہیوگو کے ناول پر بنائی گئی۔فلم ” دوریاں “ سماجی تفریق سے متعلق ہے۔ فلم ” طوفان “ (1976) کے فلمساز بھی عسکری بھائی ہی تھے۔ مشہور واقعہ ہے کہ مذکورہ فلم سنسر کے لئے دکھلائی جا رہی تھی ۔ وہاں نامور مصنف اشفاق احمد بھی موجود تھے۔ فلم کو دیکھ کر انہوں نے بیساختہ کہا کہ یہ تو ہمارے ملک کے ’ ستےجت رائے ‘ Satyajit Ray ہیں۔مجھے خود ایور نیو فلم اسٹوڈیو میں نامور فلم ڈائریکٹر داﺅد بٹ (م) صاحب کی موجودگی میں ایک واقعہ سنایا گیا کہ (غالباََ) 1989 میں اسٹوڈیو کے کسی ہال میں انور مقصور کسی تقریب کے لئے انتظام کروا رہے تھے ۔فاطمہ ثرےا بجیا (م) بھی موجود تھیں۔عسکری بھائی آگے بڑھ کر بجیا سے ملنے گئے تو بجیا نے سب لوگوں کی موجودگی میں کہا کہ میری ذاتی لائبریری میں صرف ایک پنجابی فلم ” میلہ “ (1986)ہے جو عسکری بھائی کی تھی۔ عسکری بھائی کی فلموں کی کامیابی کا تناسب بھی بہت اچھا ہے۔ اِن کا قابلِ فخر کام آئی ایس پی آر کے لئے پاکستان کے وجود پر فلم ” امانت “ کابنانا ہے۔جس میں بتاےا گیا ہے کہ پاکستان کیسے معرضِ وجود میں آیا۔یہ فلم آئی ایس پی آر کی لائبرےری میں موجود ہے۔یہ پاکستانی فو جی جوانوں کو دکھائی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں الحمرا اور دیگر آرٹس کونسلیں ، کلچرل ڈپارٹمنٹ، پھر ریڈیو اور پاکستان ٹیلی وژن اور دیگر ذرائع سے صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی کے لئے نامزدگیاں آگے بھیجی جاتی ہیں۔ میرے ذرائع کے مطابق الحمرا آرٹس کونسل کے کیپٹن عطاءنے حسن عسکری بھائی کو دو مرتبہ اس اعزاز کے لئے تجویز کیا تھا۔ اُن کی فلموں سے متعلق کئی افراد نے نام کمایا جیسے ناصر ادیب۔سید نور صاحب نے بھی عسکری بھائی کے لئے لکھا۔ انہوں نے سیف الدین سیف ، وحید ڈار، استاد دامن، احمد راہی، سیدضمیر جعفری، مسرور انور، خواجہ پرویز، وارث لدھیانوی، احمد فراز، قتیل شفائی، تنویر نقوی، حزین قادری اور ان جیسے بڑے لوگوں کے ساتھ بھی کام کیا۔ اب یہ حسنِ اتفاق ہے کہ حسن عسکری صاحب نے اپنی فلموں کے ذریعے جن فنکاروں کو متعارف کروایا، ان میں سے بعض کو تو یہ تمغہ مل گیا اور جو فلم کے پیچھے کھڑا تھا اس کو محروم رکھا گیا۔ میری طرح اور لوگ بھی یہ پوچھنے میں حق بجا نب ہیں کہ جو اس تمغہ کے لئے نامزدگیاں بھیجتے ہیںکیا وہ فلم ڈائریکٹر حسن عسکری صاحب سے زیادہ تجربہ کار ہیں ؟ کیا وہ ان سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں ؟ کیا اُن کا کام اِن سے زیادہ بہتر ہے ؟ میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں لیکن ابھی تک حسن عسکری صاحب کو ان کا صلہ نہیں مل سکا !! میں خوش قسمت ہوں کہ عسکری بھائی جیسے نامور لوگوں سے صحبت ہے۔میرے حلقے میں بعض ایسے بھی مشہور لوگ رہے ہیں جو اس اعلیٰ ترین سول اعزاز سے محروم رہے اور دنیا سے ہی چلے گئے یا پھر انہیں بعد از مرگ یہ اعزاز دیا گیا۔مثلاََ ہمارے مسرور انور المعروف مسرور بھائی۔میری حکومت پاکستان اور متعلقہ شعبہ کے ذمہ د اروں سے درخواست ہے کہ حسن عسکری بھائی جیسے گوہرِ انمول کی قدر دانی ان کی زندگی میں کی جائے۔نصف صدی سے زیادہ محنت کرنے کے بعد اب یہ ممکن نہیں کہ وہ فلم انڈسٹری کو مستقل ذریعہ معاش بنائیں۔ یہ اعزاز جہاں ان کی عزت افزائی کا باعث بنے گا وہاں انہیں کچھ مالی آسودگی بھی فراہم کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں