عروس البلاد شہر کراچی اور کراچی والے جنہوں نے شاید ماضی میں سنے اور کہے گئے ایک جملہ کو اپنی گرہ سے باندھ لیا تھا کہ ”ایک چپ سو کو ہرائے“ یوں ایسے چپ ہوئے کہ صبح و شام ان کا استحصال کیا جارہا ہے مگر وہ خاموش ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تربیت ہی کچھ اس طرح ہوئی ہے کہ والدین سے کچھ فرمائش کی تو انہوں نے ڈانٹ کے چپ کروا دیا تو پھر احتراماً دوبارہ تقاضا کرنے کی جرات ہی نہ ہوئی یا پھر ہمت ہی نہیں رہی کہ اپنے حق کی خاطر جائز بات پر زبان کھول دیں۔ پھر پریکٹیکللائف میں بھی یہی کچھ ہوا۔ کراچی میں دوسری قومیتیں آکر آباد ہوتی رہیں اور کراچی نے سب کے لئے اپنے دامن کو کھول دیا، جسے پاکستان میں کہیں روزگار نہیں ملا وہ کراچی آیا اور خوب پیسہ کمایا، ٹرانسپورٹ پر ہمارے پٹھان بھائیوں نے قبضہ جما لیا مگر پھر کراچی کے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ویگن اور بسوں میں بھرا جانے لگا مگر سب نے خوشی سے ویگن اور بسوں میں دھکے کھا کر جینا سیکھ لیا۔ جھڑکیاں اور گالیاں سن کر بھی خاموش رہے۔ آہستہ آہستہ کراچی کے وسائل پر پلاننگ کے تحت قبضہ کیا جاتا رہا مگر کراچی والے خاموش رہے پھر کراچی والوں پر کراچی کا پانی بند کردیا گیا۔ کراچی والے خاموش رہے پھر وہی پانی کراچی کے شہریوں کو بھاری قیمت میں فروخت کیا جاتا رہا، کراچی والوں نے ہنس کر بلکہ اس بات پر فخر سے کہ ہم تو پانی خرید سکتے ہیں اس ظلم پر بھی لبیک کہا، پھر ڈیفنس کلفٹن اور بقیہ کراچی میں تفریق کی گئی تو پھر کراچی والے امیری اور غریبی کے طوق اپنے گلے میں ڈال کر جیتے رہے۔ پھر کراچی کی بجلی بند کردی گئی، لوڈشیڈنگ بڑھتی چلی گئی۔ کوئی نہیں بولا۔ پھر بجلی تو نہ دی گئی مگر بل دے دیئے گئے تو کراچی والوں نے حب الوطن پاکستانی بن کر تمام بلوں کی بروقت ادائیگی کردی جو جنریٹر لگا سکتا تھا اس نے جنریٹر میں اس مسئلہ کا حل تلاش کر لیا مگر اس ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی اور نہ یہ سوچا کہ چلو میں تو جنریٹر لگا نے کی استطاعت رکھتا ہوں مگر ایسے بھی تو ہوں گے جو جنریٹر کا خرچ اٹھانے سے قاصر ہوں گے۔ وہ کیا کریں گے۔ کیوں نہ اس ظلم کے خلاف باہر نکلا جائے مگر خاموشی اختیار کر لی گئی۔ وقت گزرتا رہا۔
پھر کراچی والوں کو ظلم و جبر سے نجات دلانے کے لئے کچھ نام نہاد ایجنٹ سامنے آگئے اور یوں کراچی والوں کے مسائل بڑھ گئے اور ان کے جرمانے بھی بڑھا دیئے گئے۔ بلوں کے علاوہ بھتہ خوری بھی کراچی والوں کا مقدر بن گئی۔
”خود گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“
پھر ظلم و جبر کی وہ تاریخ رقم ہوئی کہ جسے سوچ کر آج بھی جھرجھری آ جاتی ہے مگر کراچی والے اس ظلم کے خلاف بھی خاموش رہے، پھر کراچی کی زمینوں کے سودے شروع ہوئے اور کراچی کا کوئی گرین ایریا، کوئی درخت، کوئی گوشہ راحت ایسا ہی نہیں بچا جہاں بلند بالا عمارتیں نہ کھڑی کردی گئی ہوں۔ یوں کراچی کی زمین بھی چوری کرکے کراچی کے لوگوں کو ہی فروخت کردی گئی اور پھر ایک سازش کے تحت اسے غیر قانونی قرار دے کر بلڈوزر بھی چلا دیئے گئے مگر مجال ہے کہ کراچی والوں نے اُف تک کی ہو۔
یوں ایک وقت وہ آیا کہ کراچی والوں پر کراچی کی ملازمتوں کے دروازے بھی بند ہو گئے۔ کراچی کے کالجوں، یونیورسٹیوں میں داخلے کراچی کے نوجوانوں پر مشکل بنا دیئے گئے۔
یوں آج کا کراچی، وہ کراچی نہیں رہا جو آج سے قبل ہوا کرتا تھا جہاں کی راتیں جگمگاتی تھیں، جہاں خواتین اور نوجوانوں کو ٹولیوں کی شکل میں رات گئے کلفٹن کے علاقوں، ناظم آباد کی شاہراہوں پر یا طارق روڈ، بہادر آباد پر شور مچاتے اور قلفی گولہ گنڈا اور پان کھاتے دیکھا جاتا تھا مگر پھر ان تمام خوشیوں کو نظر لگ گئی۔ کراچی والے کراچی میں مقید کردیئے گئے۔ ایک خوف کی فضا پیدا کردی گئی، جگہ جگہ رینجرز کی چوکیاں یہ کہہ کر قائم کر دی گئیں کہ یہ آپ کی حفاظت کے لئے ہیں مگر آج ہر چوکی بھتہ خوری کا مرکز بن چکی ہے، یہاں سے ڈرگ کی پڑیاں سرکار کی سربراہی میں نوجوانوں کی نسل کو برباد کرنے کے لئے فروخت ہو رہی ہیں۔ کراچی میں ہر ناجائز کام سرکار کی سربراہی میں ببانگ دہل ہو رہا ہے مگر کراچی والے آج بھی خاموش ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ ان کی یہ خاموشی جو انہیں برسوں سے ہمیشہ کے لئے خاموش کرتی چلی آرہی ہے انہیں مکمل دفن کردے گی اور وہ وقت آچکا ہے اب یہ کراچی والوں پر منحصر ہے کہ وہ روز جیتے جی مریں یا پھر ایک بار اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے کھڑے ہو جائیں، بول اٹھیں اور اس وقت خاموش نہ ہوں جب تک یہ ظالم اور جابر لوگ یا تو دفن کر دیئے جائیں یا پھر کراچی چھوڑ کر وہاں جا بسیں جہاں سے یہ تعلق رکھتے ہیں کیونکہ یہ کراچی میں پاکستانی بن کر نہیں بلکہ کراچی کے غلاموں پر حکمرانی کی سوچ لے کر کراچی آتے ہیں۔ انہیں سبق سکھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ”جیو اور جینے دو“ کے اصول کے تحت اپنے حقوق کی جنگ کا اغاز وقت کی پکار ہے۔
338