تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 554

بے ناموں میں۔۔۔

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک طاقتور پہلوان اپنی شہہ زوری کے باوجود مفلسی کا شکار تھا۔ اسے اپنے وطن میں باعزت روٹی کمانے میں ناکامی ہوئی تو ایک دن اس نے اپنے باپ سے بیرون ملک جانے کی اجازت مانی، باپ نے سمجھایا کہ صرف طاقتور ہونا ہی کوئی ایسی خوبی نہیں جس کے باعث تو پردیس میں کامیابی حاصل کرسکے۔ صرف پانچ شعبہ ایسے ہیں جنہیں باہر کا سفر راس آتا ہے۔ پہلا دولت مند تاجر، دوسرا موسیقار، تیسرا عالم، چوتھا خوبرو، پانچواں وہ جو ہنر مند ہو۔ آج کل ہمارے ملک کے حالات نہایت ہی بد ترین صورت اختیار کر کگئے ہیں ملک ماضی کے مقابلہ میں معاشی بدحالی کا شدید ترین شکار ہے۔ حالات اس ہی طرح ظاہر ہو رہے ہیں جیسا کہ افغانستان میں شکست کے بعد سوویت یونین کے تھے۔ جو بظاہر دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور ہونے کے باوجود اپنی معاشی بدحالی ہونے کے سبب منتشر ہو کر مختلف حصوں میں تقسیم در تقسیم کا شکار ہو گئی اور سوائے روس کے تمام سوویت یونین چھوٹے چھوٹے علاقائی ملکوں میں تقسیم ہو گیا۔
پاکستان کے ناقدین بھی یہ ہی بھیانک تجزیہ پیش کررہے ہیں کہ اگر یہی صورت حال رہی تو پنجاب روس کی شکل میں ایک بڑا ملک کی حیثیت سے قائم رہ پائے گا۔ باقی علاقے سوویت یونین کے چھوٹے چھوٹے ملکوں کی طرح تقسیم ہو کر بڑی طاقتوں کے محتاج بن کر رہ جائیں گے۔ حاکم بدھن۔
اس وقت پاکستان کے مختلف حکمران طبقے اپنی اپنی حاکمیت قائم کرنے میں مصروف عمل ہیں ان کو ملک کی سلامتی سے زیادہ اپنے اپنے دائرہ عمل کی سلامتی کی فکر ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ ملک کا میڈیا قوم کو مختلف مواقعوں پر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر ملک کے گمبھیر مسائل سے نابلد رکھے ہوئے ہیں۔ ملک کا کوئی بھی ادارہ سنجیدگی سے ملک کو تباہی کے اندھیروں سے بچانے کے لئے عوام کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ان اداروں کو یہ بات بخوبی سمجھ میں آگئی ہے کہ اس قوم کو جب تک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جاتا رہے گا یہ قوم اصل حقائق سے بے خبر رہ کر ان کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کرتی رہے گی۔ ان حکمرانوں نے جن کا تعلق کسی بھی جماعت یا اداروں سے ہے ان کی غلط پالیسیوں کے باعث ملک موجودہ حالات تک پہنچا ہے۔ ان حکمرانوں نے گزشتہ تمام عرصہ عوام کو صحیح حقائق سے بے خبر رکھ کر ان کو مختلف طرح کی ٹرک کی بتیوں کے پیچھے لگائے رکھا اور قوم بھی اپنی سادگی کے باعث ان کے پیچھے بھاگ بھاگ کر بد حالی کے اس درجہ تک پہنچ گئی جہاں سے واپسی تقریباً ناممکن ہوتی جارہی ہے۔ ان تمام صاحب اختیار نے گزشتہ ستر سالوں میں اپنے اپنے شعبوں میں اپنی طاقت کے بل پر ملک پر حکمرانی کرلی مگر ملک اور عام کا حشر دنیا کے سامنے ہے اس کے برخلاف ہمسایہ ملک کے حکمرانوں نے پہلوان کے والد کی نصیحت کے مطابق ملک کے مختلف شعبوں میں ایسے حکمران منتخب کئے جو اپنے شعبوں میں بے ناہ ہنرمند تھے۔ انہوں نے سائنس اور ہنر کے بہت سے شعبوں میں بے پناہ وسائل اور مواقع پیدا کئے۔ تعلیم کو عام کرکے اپنے عام میں بے پناہ شعور پیدا کیا۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں کے ذریعہ ملک میں صنعتیں قائم کیں۔ آرٹ کے شعبے میں بڑے مقبول نام دنیا کے سامنے روشناس کروائے۔ موسیقی کے شعبہ میں پانے ملک کا نام اس طرح روشن کیا کہ دنیا بھر میں پیار و محبت کے حوالے سے اس ملک کا نام لیا جاتا ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں گزشتہ ستر سالوں سے اشرافیہ نے مختلف طبقوں کو ملا کر اپنے آپ کو ایک ایسا طاقتور گروپ بنا لیا جس کے سامنے جو بھی آیا وہ ناکام ثابت ہوا۔ یہ گروپ ایک مافیا کی صورت ملک میں حکمرانی کرتے کرتے ستر سال کا بہترین عرصہ بڑی آسانی سے گزر گیا۔ جب کہ ملک اور اس کے عوام وقت کے ساتھ کمزور سے کمزور ہوتے چلے گئے آج بھی ملک بڑے نازک مقام پر پہنچ گیا ہے مگر یہ مافیا اپنی اپنی اقتدار کی جنگ میں مصروف اور عوام کو غیر ضروری معاملات کے پیچھے لگا دیا۔ آج عوام پر معیشت کی کمزوری کے مضمرات بھگتنے پر مجبور ہونے کے باوجود اصل حقائق سے آگاہ نہیں کیا جارہا۔ ملک جس طرح کے خطرات میں گھرا ہوا ہے اس کے بارے میں آگاہی پہنچانے کے بجائے مختلف طرح کے نعرے لگا کر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ ایک طرح کی آپس میں نورا کشتی کا تماشا عوام کے سامنے لگایا ہوا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ملک ہر شعبے میں نا اہل لوگ مسلط ہو گئے ہیں انہوں نے اپنے اپنے خاندانوں کو ملک کے قیمتی اثاثوں کو فروخت کرکے سرمایہ بیرون ملک منتقل کردیا ہے اب بھی ملک پر ترس کھانے کے بجائے گرتی ہوئی دیواروں کو سمجھانے کے بجائے لوٹ کے مال پر آپس میں دست و گریباں ہیں یہ اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ اپنی نا اہلی کے باوجود اہل لوگوں کے پاس ملک کی باگ ڈور حوالے کرنے سے رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ اعزازات کو آپس میں تقسیم کرکے بندر بانٹ کررہے ہیں۔یہ طاقتور لوگ چاہے سیاستدانوں سے تعلق رکھتے ہوں یا بیوروکریسی سے، عدلیہ سے تعلق رکھتے ہوں یا انتظامیہ سے، یا میڈیا سے، جس نے بھی ان کے سامنے زبان کھولنے کی کوشش کی اس کو اپنے راستے سے ہٹا دیا۔ اس کی کہانی تو قیام پاکستان کے بعد سے شروع ہو گئی تھی جب قائد اعظم کو ڈرگ روڈ پر ایک بوسیدہ ایمبولینس میں آخری سانسیں لینے کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہ آخری سانسیں آج ملک کی معیشت کی سنائی دے رہی ہیں۔ لیاقت علی خان کے سینے میں اتاری گئی بندوق کی گولیوں نے صرف ان کے وجود کو ان کے بینان کی طرح مختلف سوراخوں میںنہیں ظاہر کیا بلکہ قوم کو بھی اس ہی طرح کے زخموں میں تبدیل کردیا۔
خواجہ ناظم الدین کا مذاق اڑا کر قوم کی سادگی پر طنزیہ الفاظ استعمال کئے۔ ایوب خان کے فوجی بوٹوں سے قوم کے احساسات اور جذبات کو کچلا گیا۔ جسٹس منیر کے عدالتی ہتھوڑے سے عوام کی رائے کو کچلا گیا۔ اور پھر یحییٰ خان کی بدمستی میں قوم کو بھی ڈبو کر مشرقی پاکستان کو الگ کردیا گیا۔ اسلام کا نام لے کر سب سے زیادہ اسلام کو نقصان بھی مرد مومن نے پہنچایا۔ یوں عوام کو مختلف ٹرک کی بتیوں کے پیچھے لگا کر اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل کے سلسلے قائم رہے۔ پھر جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو میری دنیا لٹ رہی تھی۔ اور میں خاموش تھا۔
عالمی ماہرین اس سال کو پاکستان کا نازک ترین سال قرار دےرہے ہیں۔ عوام کو خود یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ان حکمرانوں کے پیچھے چلتے ہوئے ملک اور قوم کو اس کے حتمی انجام تک پہنچتا دیکھنا چاہتے ہیں یا خود قربانی دے کر اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک ایسا پاکستان چھوڑ کر جائیں جہاں کے نوجوان بزرگ باپ کی نصیحت کے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان کے ماہر ہو۔ تعلیم یافتہ، باشعور ہوں، اپنے شعبہ کے ماہر ہوں، آرٹ اور ادب میں بڑے نام پیدا کرکے ملک اور قوم کا نام روشن کریں۔
اگر عوام اب نہیں جاگے تو
نام بھی نہ ہو گا داستانوں میں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں