یہ اسکول کے بھاری بستے۔۔۔ 176

ٹریفک حادثات میں موٹر سائیکل کا کردار

میں نے ہم خیالوں کے ساتھ مل کرکراچی، لاہور، راولپنڈی اور کچھ بڑے شہروں میں گزشتہ پانچ سال کے دوران حادثات کے وجوہات جاننے کی ایک سرسری تحقیق کی۔ اس میں چونکا دینے والی بات سامنے آئی کہ 75 فی صدحادثات موٹرسائیکل کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ آپ اِن شہروں کے کسی بھی مصروف اشارے، کراسنگ، یو ٹرن یا ریلوے پھاٹک پر چلے جائیں۔آپ کو ایک ہی نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔ تقریباََ تمام ہی موٹر سائیکل سوار (بشمول فیملی) ٹریفک قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ابھی ا±ن کے جانے کا اشارہ بھی نہیں کھلتا کہ پانچ دس موٹر سائیکل والے اکٹھے اپنی راہ لیتے نظر آئیں گے۔گویا ان کو ایسا کرنے کا حق ہے۔موٹر سائکل کے جان لیوا حادثات کی ایک اور بڑی وجہ ہیلمٹ کا عدم استعمال ہے۔ ” روڈ سیفٹی “ کس چڑیا کا نام ہے؟ انہیں کچھ علم نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے افراد بھی ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے۔ انہیں قوانین سے آگاہی نہیں ہوتی۔اب یہ آگاہی کون دے گا؟ اور جب اس کے بغیر ہی کام چل رہا ہے تو یہ آگاہی لی ہی کیوں جائے؟ کوئی کیا بگاڑ لے گا؟ جب اِس قِسم کی سوچ ہمارے معاشرے میں پروان چڑھے تو پھر کیسی آگاہی؟ یہاں تو خاصی بڑی تعداد کے پاس موٹر سائیکل چلانے کا لائسینس ہی نہیں ہوتا۔ کہیں پوچھ گچھ ہو بھی جائے تو قومی شناختی کارڈ پر چالان ہو جاتا ہے۔ ٹریفک کے قوانین کی پاسداری تو وہ کرے گا جس کو وہ معلوم ہوں! اگر شروع ہی میں ڈرائیونگ لائسینس کے حصول کے لئے تحریری اور عملی امتحان لازمی ہوتے تو یہ دِن نہیں دیکھنا پڑتے۔مشرف دور میں عوام نے آسان اقساط کی سہولت کی وجہ سے بڑی تعداد میں موٹر سائیکلیں حاصل کر لیں۔ جس نے سائیکل چلا لی بس سمجھئے وہ موٹر سائیکل چلانے کا اہل ہوا۔ جب موٹر سائیکل چلانے والوں کو ٹریفک قوانین کی ’ الف ب ‘ ہی نہیں معلوم پھر ان سے اور کیا توقع ہو!! عوام یہ سوال اِن متعلقہ ا فسران سے کر سکتے ہیں کہ صاحب آپ نے آج تک ٹریفک قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کی بنا پر کتنے ڈرائیونگ لائسینس منسوخ کیے؟ کتنے افراد کو جیل بھیجا؟ اس تحقیق میں دیگر کئی اہم باتیں بھی سامنے آئیں۔ مثلاََ یہ کہ 30 فی صد سے زائد حادثات، سڑکوں کے ڈیزائن میں نقائص اور یو ٹرن کی وجہ سے ہوتے ہیں۔اور یہ کہ اکثر موٹر سائیکل سوار غلط سمت ڈنکے کی چوٹ چلتے ہیں اور اگر کوئی منع کرے تو ا±لٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا معاملہ کرتے ہیں۔ حادثات کے نتیجہ میں بعض موٹر سائکل سوار براستہ اسپتال یا پھر براہِ راست اللہ کے حضور پہنچ جاتے ہیں!! ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹریفک قوانین پر نہ صرف شاہراو¿ں بلکہ چھوٹی سڑکوں اور گلی محلوں میں بھی عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔صرف کراچی میں 2017 کے دوران 182 ٹریفک حادثات پیش آئے۔جِن میں 163 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ یہ وہ حادثات ہیں جو رپورٹ ہوئے اور جن کی خبریں اخبارات میں لگیں۔حادثہ تو حادثہ ہوتا ہے۔ اس کا موجب کبھی معمولی غفلت، کبھی تھکن، کبھی غصہ کی حالت میں گاڑی چلانا سامنے آیا۔ پھر دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون س±ننا بھی ایک وجہ ہے۔ اور…… کبھی خود آگے بڑھ کر موت کو گلے لگانا جیسا کہ آجکل ایک پہیے پر موٹر سائیکل چلانا ’ ون وہیلنگ ‘ یا موٹر سائیکل کی سیٹ پر لیٹ کر مصروف شاہراو¿ں پر تیز دوڑانا وغیرہ۔ میری تمام صوبائی اسمبلیوں کے ممبران سے درخوست ہے کہ وہ ایسا قانون بنائیں جس کی رو سے ایسا کام کرنے والا (اگر زندہ بچ گیا ہو تو) اتنی سخت سزا پائے کہ دوسرے عبرت پکڑیں۔موٹر سائیکل پر کرتب دکھانے وا لا اکثر جان سے جاتا ہے۔بچ جائے تو ایک طویل عرصہ وہ پہلی والی چستی نہیں رہتی اور کبھی یہ کم بخت ون وہلینگ عمر بھر کی محتاجی بخش جاتی ہے۔ا±س بد قسمت نوجوان کے گھر والے الگ پریشان اور ا±س کی لپیٹ میں آنے والے دوسرے بے قصور الگ پریشان ہو جاتے ہیں۔بات ہو رہی ہے موٹر سائیکل سواروں کے غیر قانونی رویوں اور لاپرواہیوں کی۔ اِس ضمن میں دو مشاہدات بہت عام ہیں۔ایک ریلوے پھاٹک اور دوسرا اسکول کالج کے چھٹی کے اوقات۔اِن دونوں موقعوں پر موٹر سائیکل سواروں کی بازی گری دیکھنے کے قابل ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ یہ سواری تنگ گلیوں اور رش والے علاقوں کے لئے بہت مفید ہے لیکن اس کا نا جائز فائدہ اٹھانا، خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادِف ہے۔ جب کہ اسکول کے بچے اور گھر کی خواتین بھی اس پر بیٹھی ہوتی ہیں۔خصوصاََ وہ نوجوان جو اپنے چھوٹے بہن بھائی اسکول سے لاتے ہیں یا کالج سے بہنوں کی واپسی کے لئے سڑک پر ہوتے ہیں وہ ٹریفک کے کسی ضابطے کی پرواہ نہیں کرتے۔ اسکول کالج کے سامنے رش ہے تو وہ دوسری طرف والی غلط سمت میں جانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔اسکول کالج والی سڑک پر آنا ضروری ہو تو بڑے آرام سے موٹر سائیکل ف±ٹ پاتھ پر چڑھا کر عازم سفر ہوتے ہیں اور جو پیدل خواتین و حضرات ٹریفک سے حفاظت کی خاطر یہاں چلتے ہیں، بے چارے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔بد قسمتی سے یہ تمام تفصیلات پورا پاکستان جانتا ہے۔اِن کی اصلاح کے لئے سیمینار اور اجلاس بھی ہوتے ہیں پھر یہ درست کیوں نہیں ہوتا؟ صرف اِس لئے کہ ہم بطور شہری باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن بطور والدین، ا±ستاد اور ناصح ہم انفرادی طور پر اپنی اولاد، شاگردوں اور عزیزوں کی تربیت نہیں کرتے یا …… پھر ڈنڈا ہی اِسے درست کر سکتا ہے!!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں