بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 656

تم مائیں، تم بہنیں، تم بیٹیاں: قوموں کی عزت تم سے ہے، قوموں کی عظمت تم سے ہے

خواتین کے احترام کا جو درس مذہب اسلام نے دیا وہ کسی اور مذہب میں نہ مل سکا۔ اگر عیسائی مذہب کا جائزہ لیا جائے یا یہودیت کا مطالعہ کیا جائے تو سب کی خواتین آپ کو حجاب میں نظر آئیں گی جو عورت کے تقدس اور خواتین کی عظمت کی دلیل ہے مگر گزشتہ چند برسوں سے پاکستانی میڈیا پر چلنے والے ڈرامہ سیریل اور ٹاک شوز میں کچھ گروپس کی جانب سے عورت کی آزادی کی بات منوانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے کچھ صوبوں میں آج بھی عورت کو ووٹ کا حق نہیں دیا جارہا۔ خواتین کو زیر دست رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو کمتر جانا جاتا ہے اور آئے دن چھوٹی چھوٹی بچیوں کو اغواءاور ریپ کرنے کے واقعات میں تیزی بھی آرہی ہے مگر اس کے باوجود مسلمانوں کا فیملی سسٹم اس قدر مضبوط ہے کہ یورپی، امریکی اور کینیڈین خواتین، ہماری خواتین کو رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ ہمارے رسول اور قرآن کو جس نے غور سے پڑھ لیا، وہ راغب بجانب اسلام دیکھی گئیں۔
امریکہ جیسے ملک میں آج تک عورت حکمراں نہ بن سکی۔ جہاں ہیلری کلنٹن جیسی خواتین صدارتی انتخاب ہار جاتی ہیں جب کہ پاکستان جیسے ملک میں محترمہ بے نظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم بن جاتی ہے۔ دنیا بھر میں اگر دیکھا جائے تو مردوں کی اجارہ داری ہے۔ خواتین پر ظلم و جبر کی داستانیں تمام ممالک کی کتابوں میں درج ہیں مگر اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے اور جس طرح ماں باپ کا احترام، بہنوں سے عقیدت، بیٹیوں سے شفقت کا درس دیا ہے وہ کسی اور مذہب یا مذہبی کتابوں کا حصہ نہیں۔
پاکستان کو ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعہ مختلف قسم کی الجھنوں میں مبتلا کرنے اور ایک کنفیوژن کی صورتحال پیدا کرنے کے لئے اس قسم کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ ہمارے علماءدین کا کثیر طبقہ مذہب کے معاملہ میں جذباتی ہے اور جہالت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہے جنہں نے مذہبی تعلیم تو حاصل کرلی مگر اُن میں تربیت کا فقدان ہے۔ تعلیم کے ساتھ اگر انسان کی تربیت نہ ہو تو تعلیم بے عمل رہتی ہے اور یہی کچھ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے کہ جب چاہیں ہمارے رسول کی بات کرکے لوگوں کو جذباتی کردیا جاتا ہے۔ کبھی ملالہ یوسف زئی جیسی خواتین پاکستان میں خواتین پر ہونے والے مظالم کا ڈھونگ رچا کر عالمی شہرت حاصل کرلیتی ہیں مگر ان تمام ڈراموں کے پیچھے مختلف ایجنڈے برسرے پیکار ہوتے ہیں۔
دوسری جانب ہمارے یہاں کا وڈیرا، خان اور چوہدری سسٹم، ان کے خاندان جس طرح غریبوں پر مظالم توڑتے ہیں وہ بھی قابل مذمت ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین سے ناروا سلوک کرنے والی بھی بڑے گھروں کی عورتیں ہی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عورتوں کا استحصال کرنے والی بھی عورت ہی ہے۔ کاش کہ ہماری خواتین اپنی عزت اور وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے گھروں سے باہر نکلتیں۔ خواتین کے جائز حقوق کی بات کرتیں۔ نوکریوں میں کوٹہ اور زیادتیاں، روز مردہ مظالم، بچیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کی مذمت کرتیں۔ بجز اس کے ایسے نعرہ جنہوں نے ان کی تحریک کو متنازعہ بنا دیا۔ حالیہ ہونے والے تلخ جملوں کے تبادلہ کے حوالہ سے جو خلیل الرحمن قمر اور ماروی سرمد کے درمیان ہوئے یقیناً قابل افسوس ہیں اور ایک پڑھے لکھے شخص کو اس انداز سے آن ایئر کسی کی بھی بے عزتی کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ نہ صرف خواتین بلکہ کسی مرد سے بھی اس انداز میں کی جانے والی گفتگو کو کوئی اچھا نہیں کہے گا۔ پھر ایک ایسے لکھاری کے منہ سے جو کہ معاشرے کی برائیوں کو قوم کے سامنے لانے کا عَلم اُٹھائے ہوئے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری تحریروں میں بھی ہماری نفرت ظاہر ہونے لگی ہے ہم اپنے غصہ اور سسٹم کی خرابیوں کو غلط رنگ میں پیش کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ”بند کھڑکیوں کے پیچھے“ جس میں شادی شدہ خواتین کے غیر مردوں سے تعلقات کو فروغ دیا گیا۔ معاشرے کی خرابیوں کو مزید اُجاگر کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم 5 فیصد خواتین کے تجربہ کی بنیاد پر ڈرامہ تشکیل دیتے ہیں مگر 95 فیصد خواتین کو نظر انداز کررہے ہیں۔ ہمیں جاننا ہوگا کہ ہم کہاں غلط ہیں، ہمیں برائیوں کو چھپانا چاہئے جنیں ظاہر کرکے ہم اپنی نوجوان نسل کو شہہ دے رہے ہیں۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو انکل عرفی، خدا کی بستی، آہٹ، ان کہی، آنچ، ایک حقیقت سو افسانے جیسے مایہ ناز سیریل یاد آتے ہیں۔ کیا کردار تھے۔ ہر ایک ڈرامہ کے اندر ایک پیغام ہوتا تھا۔ جو ہمارے معاشرے کا صحیح عکاس تھا۔ ہماری میڈیا کی آزادی نے بھی ہمیں باہمی دست و گریباں کرکے رکھ دیا ہے۔ اور ریٹنگ کے چکر میں ہم سب اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ اور خود نمائی کا عنصر بھی روز بروز بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں