آج کی تحریر میں میرے ایک کرم فرما، ایک انتہائی دیانت دار بیوروکریٹ جناب محمد اسحاق لاشاری کی پوسٹ سے مستعار لی ہے اور انہوں نے بھی اس دل کو چھو لینے والی تحریر کو فیس بک پر لگا کر جو کہ صدقہ جاریہ کا درجہ رکھتی ہے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
تحریر میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے وہ دراصل وطن چھوڑ کر آنے والے ان بزرگوں کی داستان ہے جو اپنا معاشرہ چھوڑ کر ان ممالک میں آگئے ہیں جہاں کسی سے کسی کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اپنے گھروں میں ایک اجنبی کی طرح رہتے ہیں، تنہائی کا ناگ انہیں ہر لمحہ ڈستا رہتا ہے۔ اولاد کو فرصت نہیں ہے ان کے بچوں کا ان ”بزرگوں“ سے کوئی ذہنی رابطہ نہیں ہے لہذا یہ افرادجو اپنے وقت کے کامیاب، دلچسپ، حس مزاح رکھنے والے شمار ہوتے تھے آج کس نمی پرسد کہ بھیا کشی کی تصویر بنے ہوئے رہتے ہیں۔ کوئی ان سے بات کرنے والا نہیں ہے۔ کوئی ان کو سمجھنے والا نہیں ہے، لہذا یہ آہستہ آہستہ پگھلتے رہے ہیں جیسے شمع جلتی رہتی ہے اور پگھلتی رہتی ہے اور پھر ایک دن خاموشی سے اس دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ اب یہ تحریر ملاحظہ کیجئے:۔
قریشی صاحب سے دوستی پرانی نہیں ہے صرف دو ڈھائی سال برس پہلے کا ذکر ہے۔ قریشی صاحب ستر برس کے لگ بھگ ہیں۔ پچاس برس سے زیادہ کے معلوم نہیں ہوتے۔ ملاقات بھی عجیب طریقے سے ہوئی، مجھے اسلو کے زمانے سے اب تک تیرنے کا شوق ہے، گرمیوں میں مقامی کلب اور سردیوں میں سول افسروں کے بیس میں گرم پانی کے سوئمنگ پول میں شوق پورا کرتا ہوں۔ دو برس پیشتر تیراکی سے فارغ ہو کر باہر کرسی پر بیٹھا تھا، ساتھ میں ایک صحت مند بزرگ تشریف رکھتے تھے، انہیں کئی مہینوں سے دیکھ رہا تھا مگر کبھی بات نہیں کی۔ اس دن سلسلہ شروع ہوا۔ ”مجھے قریشی کہتے ہیں“ یوں ابتدائی تعارف ہوا۔ تھوڑے عرصے بعد ان سے دوستی ہو گئی۔ پچاس منٹ تیرنے کے بعد قریشی صاحب کافی کا ایک کپ پیتے تھے اور یہی گفتگو کا بہترین وقت ہوتا تھا۔ مجھے بے حد تعجب ہوا جب انہوں نے اپنی اصل عمر بتائی۔ تاریخ پیدائش ملک بننے سے قبل کی تھی۔ بڑھاپے میں اتنی پھرتی اتنی بھرپور صحت بہت عرصے کے بعد دیکھنے کو ملی ایک دن ہم دونوں سوئمنگ پول کے باہر بیٹھے ہوئے تھے، کافی کا ایک کپ پینے کے بعد دوبارہ کافی منگوائی۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا میری آنکھوں میں سوالیہ تجسس دیکھ کر انہوں نے کہا آج میرا ”برتھ ڈے“ ہے اور اسے صرف اپنے ساتھ منا رہا ہوں۔ قریشی صاحب ترنگ میں تھے، میں پوچھا کہ آپ کی اتنی اچھی زندگی اورصحت کا راز کیا ہے۔ بولے ”ڈاکٹر بڑی مشکل سوال پوچھ لیا آپ نے“۔ اب جواب غور سے سنو۔ پچاس برس کی عمر تک بہت اچھی زندگی گزاری، کاروبار کیا، پیسے کمائے، ہر وقت ذہن میں یہی دھن سوار رہتی کہ بچوں کو سیٹل کرنا ہے، خیر ان کو بھی کاروبار کرادیا، وہ بھی دولت میں کھیلنے لگے، پھر بڑے بیٹے کے ذہن میں بھوت سوار ہوا کہ بہتر زندگی کے لئے کینیڈا منتقل ہونا ہے کیونکہ اب تمام فیصلے وہ خود کرتا تھا۔ لہذا میں نے انکار نہیں کیا۔ بیٹا صرف ایک ہے باقی بیٹیاں ہیں خیر اسے کینیڈا منتقل ہونے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ پھر مجھے یہ فکر لاحق ہو گئی کہ گھر خالی ہو جائے گا، میں یہ بات بتانی بھول گیا کہ بیوی کا انتقال ہو چکا تھا جب بیٹا سرمد ابھی چھوٹا تھا، دوسری شادی اس وجہ سے نہیں کی کہ مرد جب دوسری شادی کرتا ہے تو وہ اولاد کے لئے اجنبی سا شخص ہو جاتا ہے غیر سوچنے سے کیا ہوتا ہے، بیٹا کینیڈا بڑے آرام سے رخصت ہو گیا، گھر میں، میں اکیلا رہ گیا، اس وقت عمر ساٹھ سال ہو چکی تھی۔ گھر اس قدر خالی ہو چکا تھا کہ ہول آتا تھا اور فیکٹری جانا بھی عجیب سا لگتا تھا، بڑی مشکل سے اپنے آپ کو بستر سے خود ہی زبردستی نکالنا تھا۔ پھر لاﺅنج میں گھنٹوں بیٹھا اخبار پڑھتا رہتا، پرانے دوستوں سے کبھی ملاقات ہوتی تو کہتے کہ چلو کسی عورت کو سہارا دینے کے لئے شادی کرلو، کم از کم کوئی بات کرنے والا تو موجود ہو گا مگر مجھے یہ تجویز پسند نہیں آتی۔ اس طرح ایک سال گزر گیا۔ ایک ٹی وی چینل پر جانوروں کا چینل “Animal Planet” دیکھ رہا تھا تو دیکھا کہ ہاتھیوں کا ایک جھنڈ شدید خشک سالی میں بھی اکٹھا رہتا ہے، کوئی بھی دوسرے جانور کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔ دماغ میں پتہ نہیں کیا خیال آیا، تحقیق کرنے لگا کہ جنگی جانوروں کی اکثریت کیسے رہتی ہے، جواب بے حد آسان تھا، اکثر جانور گروہ کی شکل میں رہتے ہیں۔ ضمنی سوال اٹھا اگر اکیلے رہ جائیں تو کیا ہوتا ہے، تجزیے کا نتیجہ خوفناک تھا، اکیلا جانور بہت تھوڑے عرصے کے بعد کسی نہ کسی وجہ سے مر جاتا ہے جب اس معاملے کو انسان میں دیکھا تو نتائج حیران کن تھے۔ پختہ عمر کے اثر لوگ تنہائیکے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ زندگی کے تجربات کو یکسانیت کا بھالا بنا کر روح میں اتار لیتے ہیں۔ تلخیوں کو کرید کرید کر زندہ رکھتے ہیں، سوچ کو اس قدر منفی کر لیتے ہیں کہ اولاد، رشتہ دار اور دوست ملنے سے گھبراتے ہیں اور کتراتے ہیں، اپنی کامیابیوں کو بھول کر صرف اور صرف زندگی کے حوادث کی طرح سینے میں سجائے قبر میں اتر جاتے ہیں۔ ایک چیز جو جانور یاد رکھتے ہیں کہ گروہ در گروہ کی سکل میں رہنا چاہئے، ہر گز ہر گز تنہا نہیں رہنا چاہئے۔ یہ دانا اور بزرگ لوگ بھول جاتے ہیں۔ قریشی صاحب نے کافی کی چسکی لگاتے ہوئے کہا کہ یہی نکتہ میں نے پلو سے باندھ لیا اور لوگوں سے جوڑنے کا نایاب فن سیکھ لیا۔ میرا سوال تھا کیسے؟ قریشی صاحب نے ہنسنا شروع کر دیا، کہنے لگے دن میں ساری نمازیں دفتر یا کمرے میں بیٹھ کر بڑھتا تھا، وجہ یہ تھی کہ بیٹھ کر بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا تھا پھر ایک فولڈنگ چیئر گاڑی کی ڈکی میں رکھی اور فجر کی نماز محلے کی مسجد میں پڑھنی شروع کردی۔ دن کی نمازیں نزدیک ترین مساجد میں پڑھنے کا ورد کرلیا۔ ڈیفنس میں محلے کا تصور نہیں ہے لہذا نزدیک ترین لوگوں سے رابطے شروع کر دیئے۔ اپنی سوچ کو دوسروں سے شیئر کرنے لگا، صبح کا وقت انتہائی خوشگوار ہو گیا پھر ہفتے میں تین دن گھر کے نزدیکی پارک میں جانا شروع کردیا اور وہاں ایک ”یوگا گروپ“ میں شامل ہو کر جس میں ستر کے قریب ہر عمر کے حضرات، بوڑھے بچے اور خواتین شامل تھیں اور ورزش کرتے تھے میں بھی شامل ہو گیا اور ستر دوست بنائے خیر میرے پاس فیکٹری جانے سے پہلے بھرپور مصروفیات تھیں، شام کو بھی تین چار گھنٹے آرام سے گزر جاتے۔ فیکٹری میں چھٹی کرنا چھوڑ دی۔ ساتھ ساتھ دفتر میں بھی بیٹھنا تقریباً ختم ہو گیا دن میں تین دفعہ پوری فیکٹری کا چکر لگانا ہر ورکر کے پاس جا کر کام دیکھنا، معیار جانچنا، سب سے بڑی بات یہ کہ ورکرز سے ان کے حالات پوچھنا اس کی حوصلہ افزائی کرنا، ان کی مشکلات کو حل کرنا، حالت یہ ہو گئی کہ اسٹاف اور ورکرز اتوار کی بھی چھٹی نہ کرتے، فیکٹری کی حالت یہ ہو گئی کہ معیار بہتر ہوا کہ آرڈر آنے دگنے ہو گئے، اب میں نے منافع میں مزدوں اور اسٹان میں شامل کر لیا۔ منافع کے دو حصے کر دیئے ایک اپنے لئے دوسرا ورکرز کے لئے ان کی فلاح و بہبود بچوں کی تعلیم وغیرہ پر خرچ ہونا ان کی بیماریوں کے اخراجات ادا کئے جاتے صرف دو سال میں، میں نے دوسری فیکٹری لگا لی، صرف اس لئے کہ میرے ورکرز مجھے اپنا سمجھتے تھے اور بالواسطہ طور پر منافع میں بھی شراکت دار تھے۔ سیٹھ اور مزدوروں کا فرق ختم ہو گیا تھا، سرمد جب کینیڈا سے سالانہ چھٹیوں میں آیا تو میرا روٹین دیکھ کر حیران ہو گیا۔ فیکٹری گیا تو سشدر رہ گیا جس طرح میرا عملہ کام کرتا تھا اس طرح تو یورپ میں بھی مزدور کام نہیں کرتے ایک دن بیٹھے بیٹھے کہنے لگا کہ ”بابا آپ نے تو کمال کر دیا آ کو تنہائی ”راس“ آگئی، میرا جواب تھا، تنہائی نہیں، مجھے دوستی اور شناسائی راس آچکی ہے۔ لوگ اپنی بزرگی کے زعم میں اچھے طریقے سے زندگی گزارنے کو فراموش کر دیتے ہیں، سمجھتے نہیں کہ اصل قاتل تو تنہائی اور اکیلا پن ہے۔
604