کسی سے بات کیجئے! 320

جب آس کی کرنیں بجھ جائیں‌(حصہ دوئم)

وہ اس سے صرف عمر میں چھوٹا ہی نہ تھا بلکہ دیکھنے میں بھی اچھا خاصا سجیلا نوجوان تھا۔ اکثر صحن کی کی کائی زدہ سیڑھیوں پہ بیٹھی وہ سوچا کرتی کہ سہیل تو اتنا پیارا ہے اسے تو کوئی بھی مل سکتی تھی بہت پیاری اور بہت سلیقہ مند۔۔ پھر میں ہی کیوں ؟ سلیقے کے معاملے میں ریشماں بالکل کوری تھی۔ گھر کے کسی کام میں کبھی کوئی خاص دلچسپی نہ لی تھی بس گزارے لائق ہی کام آتے تھے۔ پڑھائی نام سے اسے ویسے ہی چڑ تھی سو سات آٹھ جماعتیں مشکل سے پاس کیں اور سکول کو خیر باد کہا۔ اور سہیل تو پوری بارہ جماعتیں پاس تھا۔ “میں ہوں ہی اتنی پیاری “ وہ اپنے لمبے بالوں کی چوٹی بناتی ہوئی سیڑھیوں سے نیچے اترجاتی ، گھر کے سارے بچے سکول سے آجاتے اور بس پھر وہ ہوتی اور بچوں کا پورا کنبہ۔۔۔
اک آس کے کنارے زندگی گزرتی جارہی تھی اک ان دیکھی، ان چھوئی آس۔ اس نے اپنے ارد گرد خاموشی کی دیوار اٹھا ڈالی تھی۔ اسے لوگوں اور خاص کر اپنے لوگوں کے سوالوں، قیاس آرائیوں اور ٹھٹھے بازیوں سے بہت خوف آتا تھا۔ “ہم نے تو سہیل کی ضد میں اس کی شادی کرائی تھی ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ بڑی عمر کی عورت ہمارے بھائی کو اولاد بھی نہ دے سکے گی” سہیل کی بڑی بہن چھت پہ بیٹھی ساری بھابیوں کے بیچ اپنا دکھڑا روتے ہوئے دوپٹے سے کس کس کے آنکھیں صاف کررہی تھی جہاں صاف کرنے کیلئے کچھ نہیں تھا اور وہ جو چنگیر میں روٹیاں رکھے اوپر آرہی تھی وہیں ٹھٹھک کے رک گئی اس کی آنکھیں بھر آئیں پر اس کے پاس صاف کرنے کی ہمت ہی نہ تھی۔نند کے رونے دھونے کے بیچ میں اس کا آجانا کسی بھی طرح خوشگوار ثابت نہ ہوا اور پھر جتنی عورتیں اتنے منہ اور اتنی ہی باتیں اور اس سب سے بڑھ کر روتی ہوئی نندیں بھائی کی دوسری شادی تک پہنچ جاتیں۔ وہ اپنی جان چھڑا کے ان کے بیچ سے ہٹنا چاہتی تو ہٹنے بھی نہ دیا جاتا۔ اس کا رو رو کے برا حال ہوجاتا پر کوئی نہ دیکھتا اسے, نہ سوچتاکہ وہ کس اذیت سی گزاری جارہی ہے
“میں کچھ دن کیلئے اماں کی طرف چلی جاو¿ں “
اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ اپنی اذیت کا دکھڑا کس کے سامنے روئے اور پھر روئے بھی کیسے؟ کوئی اس کی سنتا ہی کب۔ اس کے سر پر تو نا کردہ جرم کا الزام تلوار کی طرح لٹکتا رہتا۔ سہیل اس کی اداسی دیکھ دیکھ کر پریشان ہوتا رہتا۔ وہ شرارتی سی معصوم لڑکی محبت اوڑھ کر کیسی ویران ہوتی چلی گئی تھی۔ آتے جاتے گاہکوں کو سودا تول تول کے دیتے سہیل کا دھیان دو ہرنی جیسی آنکھوں کے خالی پن کی طرف چلا جاتا اور پھر ہٹتا ہی نہ۔ وہ بہانے سے گھر آجاتا۔ اپنی باتوں ، شرارتوں اور پیار سے اس کا دل بہلاتا مگر ایک گھمیر چپ اسے گھیرے رکھتی۔ آنکھیں سوجھی سوجھی رہتیں اور لب مکمل چپ۔
اس کی نندوں نے اپنے بھائی کیلئے لڑکی بھی دیکھ لی جوکہ اس کی جٹھانی کی چھوٹی بہن تھی۔اس کا رو رو کے برا حال تھا پر اصل طوفان تو تب آیا جب بات سہیل تک پہنچی اور اس نے پورا گھر سر پہ اٹھا لیا کہ اس کی بہنوں نے یہ فیصلہ کیا تو کیا کیسے؟ باتیں کھلنے لگیں تو اتنی کھلیں کہ سہیل ہکا بکا اپنے گھر والوں کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ اسے ریشماں پہ ہونے والے اس ظلم نے بہت دکھی کر دیا تھا۔ اسے اپنے گھر والوں سے ایسی توقع نہیں تھی اور نہ ہی رہشماں سے کہ وہ اس سے اس طرح سب چھپائے گی۔ اس نے ریشماں کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جاکر ٹیسٹ دئیے تاکہ جس کسی کو بھی علاج کی ضرورت ہے اس کا علاج شروع ہو اور پھر اکیلی اس کی بیوی ہی کیوں الزامات کے اس طوفان کو جھیلے۔
“ پاگل لڑکی! تمھیں پتہ ہی نہیں محبت کہتے کسے ہیں “ گالوں پہ آتے اس کے آنسو صاف کرتا اسے ہنساتاہوا وہ خود اندر سے کتنا ٹوٹتا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا
“ اسے بیمار ہوئے کتنے سال ہوگئے۔ تم کب تک ایک زندہ لاش کو سہارا دیتی رہوگی” دوسرے شہر سے اس کی دوست اسے فون پر سمجھا رہی تھی۔ “ریشم تیرے تو بچے بھی نہیں کہ تو مجبور ہو۔ میری بات مان۔ اس خود اذیتی سے خود کو نکال لے” خالہ صادقہ کہتی تھیں کہ میری بیٹی کی قسمت میں جانے کیا لکھا ہے دن تو دیورانیوں ، جٹھانیوں کے بچوں سے کھیلتے گزرجاتا ہے پر پہاڑ جیسی رات کیسے گزارتی ہے میری بیٹی۔۔ چارپائی پہ بیٹھ کے دھوپ سینکتی چاروں عورتوں کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں