کیا دسمبر کا مہنیہ پاکستان کی تاریخ کے سنگ ہائے میل کا مہینہ ہے؟ پاکستان کی موجودہ نسل کو تو شاید یاد بھی نہیں ہو کہ اب سے اڑتالی?س سال پہلے ہماری افواج نے بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی کے بعد ، سولہہ دسمبر کو بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے، اور ہمارے نوے ہزار سے زیادہ فوجی جنگی قیدی بنائے گئے تھے۔ اس سال سولہہ دسمبر کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ قیامِ پاکستان سے اب تک پاکستانی افواج کے سربراہ کی تعیناتی، مدتِ ملازمت، اور تنخواہ مقر ر کرنے کا کوئی قانون نہیں ہے، اور سالہا سال سے صرف روایت کی بنیاد پر فیصلے کیئے جاتے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ فیصلہ جنرل باجوہ کی ملازمت کی عارضی توسیع کے عارضی فیصلے کے بعد کیا۔ اب تفصیل میں واضح کیا گیا ہے کہ حکومت اس معاملے کو پارلیمان میں آئین کے مطابق چھہ ماہ کے اندر قانون سازی کے ذریعہ طے کرے ، ورنہ جنرل باجوہ ریٹائر ہو جایئں گے اور نیا فوجی سربراہ چننا ہوگا۔
اور آج سترہ دسمبر سنہ دو ہزار انیس کو ایک اہم عدالت کے فیصلہ کے تحت، جنرل مشرف کو آئین شکنی کا مرتکب ہونے ، اور غداری کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اس فیصلہ کے فوراً بعد پاک فوج کے ترجمان نے فیصلہ کو غلط قرار دیا اور مشرف کی حمایت میں بیان د ے دیاہے۔ اب کیا ہوگا ، یہ سب کے سامنے آئے گا۔
ہم اور ہمارے جیسے کئی رائے نگار بارہا لکھتے رہے ہیں کہ پاکستان کی تباہی اور بربادی کی ذمہ داری ہمارے اربابِ اقتدار اور مقدر قوتوں کی تو ہینِ آیئن اور قانون شکنی ہے۔ اس کی وجہہ سے انسانی اور عوامی حقوق کی غیر انسانی پامالی ہوتی ہے۔ اور بارہا آئین کو ، جوہر ملک کے عوام کے درمیان آپس میں انصاف اور بقائے باہمی سے زندگی گزارنے کا معاہدہ ہوتاہے، ردی کا پرزہ قرار دے کے نذرِ آتش کیا جاتا رہا ہے اور بھاری بوٹوں کے نیچے مسلا جاتا رہا ہے۔
پاکستان کا آئین بارہا تبدیل ، اور مسخ کیا جاتا رہا ہے۔لیکن کسی بھی ترمیم سے یہ حقیقت نہیں مٹائی گئی کہ افواجِ پاکستا ن، ملک کے شہری اور سیاسی اداروں کی منتخب کردہ وفاقی حکومت کی ماتحت ہیں، اور پاکستان کا صدر ان کا آیئنی سپریم کمانڈ ر ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شاید افواجِ پاکستان نے کبھی بھی اس اہم حقیقت کو تسلیم نہیں کیا ، اور شاید آیئن اور ریاست سے وفاداری کا ہر حلف محض بے معنی اور لفظی سمجھا جاتا رہا ہے۔
اس کے نتیجہ میں پاکستان میں بارہا فوجی اور نیم فوجی آمریت قائم ہوتی رہی ہے۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کی بہبود توکبھی نہیں ہوئی،لیکن ہم نے اپنے ملک کا اکثریتی حصہ گنوایا۔ ملک کے ہر صوبہ میں بشمول بلوچستان، سندھ، خیبر پختون خواہ ، اور دیگر علاقوں میں شہریوں کو انصاف سے محروم کیا گیا۔ بارہا اہم سیاست دانون کو ملک کا غدار اور ملک دشمن قرار دیا گیا۔ کئی بار انہیں ملک بدر کیا گیا۔ صحافیوں، مزدوروں، طلبا ، اور اقلیتوں کے ساتھ انسانیت سوز زیادتیا ں کی گیئں اور جاری ہیں۔
یہ ہماری عدالتیں ہی تھیں جو سالہا سال تک افواجِ پاکستان کی آئین شکنی اور نام نہاد انقلابوں کو عدالتی اور آئینی تحفظ فراہم کرتی رہیں۔ یہ بھی جنرل مشرف ہی کی بد ترین آئین شکنی اور توہینِ عدالت ہی تھی جس کے نتیجہ میں تاریخی آئینی اور عدالتی ردِ عمل سامنے آیا۔ مشرف کے ہنگامی احکامات کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی جماعتوں نے جو عوام کی نمایئندہ ہیں، آئین میں اٹھارویں ترمیم کی۔ جس کے بعد ہر نام نہاد فوجی انقلاب کو آئین شکنی قرار دیا گیا۔ یہ ترمیم ہمارے اربابِ اقتدار کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، کیونکہ اس کے ذریعہ صوبوں کو حکمرانی میں مساوات کی بنیاد میں وہ کچھ حقوق بھی دیے گئے ہیں جس کا ہمیشہ سے مطالبہ تھا۔ صوبائی معاملات میں وفاق کا رسوخ کم کیا گیا ہے، اور یوں حق تلفی کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سیاسی اور آئینی معاملا ت کا ہرمعروضی مبصر اور مشاہدہ نگار اس امر پر متفق ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں نو آبادیات سے آزادی کے بعد وہاں کی عسکری قوتیں ، سیاست اور حکومت میںدخل اندازی کی مرتکب رہتی ہیں۔اگر انہیں براہِ راست ریاست اور حکومت پر قبضہ نہیں ملتا تو وہ بالواسطہ مداخلت میں مشاقی سے آئین اور قانون شکنی کرتی رہتی ہیں۔ کہیں کہیں ، کبھی کبھی، سیاست دان اور عدالتیں اپنا استحقاق قائم کرتی ہیں۔ لیکن ایسا ایک دائرے کی شکل میں ہوتا ہے۔ آج کی بہتری، کل اور بھی خراب کردی جاتی ہے۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ ملک ظلم کے اس شکنجہ سے مکمل طور پر نکل چکے ہوں۔
ہمارا قیاس ہے کہ مشرف کے خلاف فیصلے کے بعد فوج کا فوری ردِ عمل آئندہ کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔ اور بہت ممکن ہے کہ حالات اور خراب ہو جائیں اور سختیا ں اور بڑھ جایئں۔ ایسا ہونے کا امکان قوی ہے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ افواجِ پاکستان اپنے رویے پر نظرِ ثانی کریں، جس کا امکان بہت کم ہے۔ اب جو ہو سو ہو۔
چند لمحے خوش ہونے کے لئے جنرل باجوہ کی ریٹائر منٹ کے فیصلہ میں تحریر کیا ہوا یہ نوٹ پڑھ لیں۔ عدالت نے تحریر کیاکہ، ” ہمارے ملک میں جمہوری بلوغت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ یہ عدالت، برطانیہ کی ایک اعلیٰ عدالت کے سابق چیف جسٹس کے اس تبصرہ کا اعادہ کرے کہ”، آپ کتنے بھی اونچے کیوںنہ ہو جائیں، قانون ہمیشہ آپ سے بالا تر ہے۔ “ برطانیہ کے چیف جسٹس، سر ایڈورڈ ک±ک نے یہ جملہ سنہ سولہ سو، سولہہ میں برطانیہ کے بادشاہ جیمز اول کے خلاف ایک فیصلہ میں لکھا تھا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری عدالتیں اس جیسے فیصلوں کی ہمت بھی کریں گی اور ان پر قائم بھی رہیں گی۔
