عمران خان توجہ فرمائیے! 269

حقیقی آزادی کیا ہے؟

آج کل عمران خان پاکستانیوں کو حقیقی آزادی دلانے کے لئے کوشاں ہیں جو کہ سامراج کے آہنی پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں ہمارے مقامی سیاسی مافیا میں جڑیں مضبوط کرچکی ہیں۔ اس گلے سڑے نظام سے جان چھڑانا بڑی جان جوکھوں کا کام ہے۔ خان نے اپنے دور اقتدار میں بڑی ہاتھ پاﺅں مارے لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ ہمارے ہاں سیاسی معاملات کے تمام بڑے فیصلے عدالتوں میں ہوتے ہیں۔ سیاست دانوں کے درمیان اتنی رسہ کشی ہے کہ وہ اسمبلیوں میں اس کو حل نہیں کرسکتے۔ ہماری سیاست اس قدر پراگندہ ہو چکی ہے کہ پاکستان سے ہر طبقہ فکر کا انخلاءبڑی تیزی سے جاری ہے۔ ہمارے ایک قاری نے حقیقی آزادی کو کس طرح بیان کیا ہے آپ کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔
حقیقی آزادی:
آج کل اپنے کپتان حقیقی آزادی کی بڑی بات کرتے ہیں، مغربی ممالک میں حقیقی آزادی کا کانسیپٹ کافی پرانا ہے۔ اس کا مطلب اپنے عوام کو اچھا اور صاف ستھرا نظام حکومت دینا ہے۔ مغربی ممالک نے جنگ عظیم دوئم کے بعد یہ احساس کر لیا تھا کہ جب تک لوگوں کو انصاف، روزگار، تعلیم، اچھی پولیس، صاف ستھرے شہر اور سب سے بڑھ کر ایک غیر متنازعہ اور غیر جانبدار انتخابی نظام اور حکومت کے مضبوط احتساب کا حق نہیں دیں گے اس وقت تک عوام حقیقی آزادی نہیں حاصل کر پائیں گے۔ اسی سوچ اور حقیقی آزادی کے لئے ریاستی ڈھانچہ بدلنا شروع ہوا۔ اور ریاستوں نے اپنے آپ کو فلاحی ریاستوں میں بدلنا شروع کردیا اور لوگوں سے عہد کیا گیا کہ آپ کا روزگار، تعلیم اور صحت ریاست کی ذمہ داری ہو گی چونکہ حقیقی آزادی کا مطلب لوگوں کو آزاد کرنا ہے۔ لوگوں کی آزادی میں مذاہب بہت بڑی رکاوٹ تھے تو اس کو بھی کٹ سائز کیا گیا۔
حقیقی آزادی کا ٹاپک ایک اکنامکس کا سبجیکٹ ہے اور مغربی دنیا کی یونیورسٹیوں نے اس کو پڑھانا شروع کیا۔ اس موضوع پر لازوال کتاب مشہور انڈین اکنامسٹ امرتا سین نے لکھی۔ جس کا نام ہے Development as Freedom اور اس کتاب پر اسے نوبل پرائز ملا۔ امرتا تاسین اور ڈاکٹر محبوب الحق بہت اچھے دوست تھے۔
امرتا سین کا حقیقی آزادی کا کانسیپٹ یہ ہے کہ فرض کرو اگر کسی ملک کی عوام بڑی امیر ہے لیکن ان کے پاس حکومت چننے کا اختیار نہیں ہے تو یہ اصلی ترقی نہیں ہے جیسا کہ مڈل ایسٹ میں، اسی طرح اگر عوام کے پاس صحت اور تعلیم ہے لیکن عوام کو مولوی کہتا کہ زندگی میرے ڈھنگ سے گزارو تو اس کا بھی مطلب یہی ہے کہ عوام آزاد نہیں ہیں۔ اور حقیقی آزادی کا جو اصل آئیڈیا ہے وہ یہ کہ لوگوں کو مکمل آزاد کرنا اور ہیومن ڈیولپمنٹ کو بڑھانا تاکہ لوگوں کی خوشیوں کو دوام ملے۔
اب عمران خان اس حقیقی آادی کے لئے کوشاں ہیں جو کہ پاکستان میں کوسوں دور ہے بلکہ جب عمران خان کے پاس موقع تھا تو انہوں نے اسٹیٹس کو کو جاری رکھا اور جب تورنے کی کوشش کی تو خود ٹوٹ گئے۔ حقیقی آزادی کے سفر کی شروعات عوام میں باشعور طبقہ پیدا کرنے سے شروع ہوتی ہے اور پھر وہ پڑھا لکھا طبقہ عوام کو ساتھ ملا کر Backward Forces کے خلاف جدوجہد کرتا ہے اور ایک ایک کرکے اپنے حقیقی آزادی کے مقاصد کرتے ہوئے معاشرے کو شعور اور آگاہی کی طرف لے جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی اسی جدوجہد سے گزر رہا ہے۔
عمران خان نے حقیقی آزادی کا جو نعرہ لگایا ہے یہ دراصل بہت بڑا انقلاب برپا کرنا ہے اور اوپر بیان کئے گئے فلسفے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ عمران خان سے پہلے کے حکمرانوں کا اگر جائزہ لیں تو فرق بڑا واضح نظر آتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی قوم کا استعمال کیا ہے نہ کہ اسے وہ بنیادی ضرورتیں مہیا کیں جو اس کا حق تھا۔ یہاں طبقاتی نظام جو پہلے سے ہی تھا اسے مزید مضبوط کیا گیا اور اس کو سرمایہ دارانہ طرز حکومت میں ڈھال دیا گیا۔ رشوت کا ایسا بازار گرم ہوا کہ جو پاکستان کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا اور اس جرم میں ہم سب شریک ہیں۔ تمام ادارے اس گھناﺅنے کھیل میں شامل ہو گئے اور برائی کو برائی نہ سمجھا گیا بلکہ بعض اوقات ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اچھائی کرنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور بددیانت کو زیادہ پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ جتنا بڑا چور ہو گا اتنی اس کی عزت ہو گی اور لوگ جھک جھک کر اس کو سلام کریں گے۔ اس کی چوکھٹ پر خوشامدیوں کا تانتا بندھا ہو گا۔ حقیقی آزادی کا حصول بڑھا کٹھن مرحلہ ہے مگر ہمیں کبھی تو اس کی ابتداءکرنی ہے تو اب اور ابھی عمران خان کے سنگ کیوں نہیں۔ پاکستانیوں کو اس وقت کوئی لیڈر اس سے نکال سکتا ہے تو یہی مرد قلندر ہے جو کسی لالچ اور خوف سے آزاد ہے اور پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا چاہتا ہے۔ آئیے مل کر اس کے ہاتھ مضبوط کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں