آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی تقرری کے نوٹس نے ملکی ایوانوں میں تھرتھری پیدا کردی ہے۔ عدالت عالیہ کے فیصلہ کا نزلہ وفاقی وزیر انصاف پر گر چکا ہے اور وہ استعفیٰ دے کر عدالت چلے گئے ہیں جہاں اطلاعات کے مطابق وہ ملک کے سپہ سالار کا کیس بذات خود لڑیں گے۔ ان کی توسیع کی تاویل پیش کریں گے۔ ہماری سیاسی حکومتوں نے ہمیشہ اداروں کی مضبوطی کی بات کی ہے۔ ایک ادارے کی مضبوطی کچھ ضرورت سے زیادہ نظر آتی ہے۔ اس ادارے کو جسے لوگ اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں ہمیشہ اپنے فیصلے بندوق کی نوک پر کرواتا آیا ہے۔ اس کی مرضی ہے کہ جب چاہے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سے تعبیر کردے جب چاہے کشمیر کاز کا رُخ ملک کی سیاسی صورتحال کی جانب موڑ کر عوام کی سوچ کو کسی اور زاویے میں لے جائے۔ کہیں مولانا فضل الرحمن کے غبارے میں ہوا بھر دے تو کہیں راتوں رات سکھوں کے لئے راہداری کا قیام عمل میں لے آئے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف ہندوستان سے تعلقات بہتر بنائے تو ملک دشمن اور اپنے لاڈلے کے ذریعہ جو اقدامات چاہے کروا لئے جائیں۔ وہ ناقابل مذمت۔ کوئی نہیں جو حق اور سچ بول بھی سکے۔ میڈیا خاموش، عوام خاموش، جس نے بھی جسارت کی راتوں رات گھروں سے غائب کر دیئے گئے۔ پورے ملک کو پولیس اور فوجی اسٹیٹ کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ پورے ملک کی مہنگی ترین زمینوں پر بھی اسٹیبلشمنٹ کا قبضہ ہے۔ ملک کی وہ صنعتیں جو فوجی فاﺅنڈیشن کے زیر سرپرستی ہیں سونا نگل رہی ہیں اور وہ جو حکومتی کنٹرول میں ہیں یا تو بند ہو چکی ہیں یا سسک رہی ہے۔ ہاں البتہ یہ سسکنے والی صنعتیں بھی جس روز اسٹیبلشمنٹ کی نظروں کو بھا گئیں یہ بھی کندن بن جائیں گی۔ ہمیں کوئی اختیار نہیں کہ کسی پر انگلی اٹھائیں مگر کاش کہ جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنالی جائے تو شاید پاکستان میں گھٹن کسی حد تک کم ہو جائے وگرنہ تو سازشیں سر اٹھاتی رہیں گی اور آج جس طرح ملک کی تاریخ میں پہلی بار آرمی چیف کی توسیع پر بحث ہو رہی ہے کل شاید یہ نہ ہو بلکہ یہ لڑائی کہیں پاکستان کے گلی کوچوں میں نہ لڑی جارہی ہو۔
467