پاکستان میں سیاسی تبدیلی وہ گولی بن گئی ہے جو نہ تو نگلی جارہی ہے اور نہ ہی اگلی، عمران خان اور ان کی جماعت حالیہ انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے تو آگئی ہے لیکن اس کی مشکلات میں کمی نہیں ہو رہی ہے بلکہ اس میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے، نئی بننے والی حکومت کو ہر موڑ پر فرسودہ اور کرپٹ زدہ سسٹم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جن میں سے ایک الیکشن کمیشن بھی ہے جس کی آخری حد تک یہ کوشش رہے گی کہ عمران خان اور وزیر اعظم ہاﺅس کے درمیان فاصلے بڑھتے جائیں کیونکہ موجودہ الیکشن کمشنر اور اس کو حاصل اختیارات بھی اسی فرسودہ نظام کا نتیجہ ہیں جس سے عمران خان پچھلے 22 برسوں سے لڑے آرہے ہیں اور یہ لڑائی اب آخری محاذ پر جان پہنچی ہے۔ میری سوشل میڈیا اور اختیارات و ٹی وی چینلز پر گہری نظر ہے جب سے عمران خان اور ان کی پارٹی کامیاب ہوئی ہے اس وقت سے ملک کی سیاست پر ایک نہ رکنے والا لرزاں طاری ہے اور اس میں وقفے وقفے سے شدت آرہی ہے ان کی مخالفتوں کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے علاوہ کوئی اور مسئلہ ہی نہیں یعنی سب سے بڑا مسئلہ ہی عمران خان ہے۔ یعنی ایک ایسا لیڈر عمران خان سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے جو کبھی کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں رہا۔ جس نے کبھی ایک روپے کی کرپشن بھی نہیں کی۔ لیکن اس کا مقابلہ ملک کے ان بڑے لٹیرے سیاستدانوں سے کروایا جارہا ہے جو ڈکار لیے بغیر ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل چکے ہیں ان تمام روایتی ڈاکو سیاستدانوں کی راتوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ ہمارے اختیارات اس کے پاس جارہے ہیں جو حقیقی معنوں میں عوامی لیڈر ہے اس طرح سے تو عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے سے عوام حکمران بن جائیں گے اسی سوچ نے پاکستانی سیاسی پنڈتوں کی راتوں کی نیندیں خراب کر دی ہیں، انہیں اس کا بھی اچھی طرح سے ادراک ہے کہ سینیٹ میں ہماری اتنی اکثریت ہے کہ عمران خان کی جانب سے آنے والے ہر نئے ”بل“ کے آگے ہم سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے اور انہیں کسی بھی صورت میں قانون کا درجہ نہیں بننے دیں گے لیکن فکر اور غم تو اس بات کا بھی انہیں کھائے جارہا ہے کہ ان وسیع تر اختیارات کو ہم کس طرح سے روکیں گے؟ جو وزیر اعظم بن جانے کے بعد عمران خان کے پاس آجائیں گے اور اس طرح سے نئے قومی بجٹ کے نتیجے میں ترقیاتی فنڈ کا جو خطیر سرمایہ ہر سال ہماری تجوریوں میں آیا کرتا تھا اب تو وہ عمران خان کے ہاتھوں عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہوگا۔ یہ وہ غم اور دکھ ہے جس سے پاکستان کی تمام تر دھتکارے جانے والی سیاسی پارٹیوں کا برا حال کر دیا ہے ان کے لئے عمران خان کے پانچ سال تو پانچ سو سالوں سے بھی زیادہ لگ رہے ہیں ان کے لئے عمران خان کے اقتدار کا ایک ایک روز بھاری ہو گا انہیں معلوم ہے کہ عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کی صورت میں ان کے پیروں سے زمین کھسکنا شروع ہو جائے گی اور اس طرح سے ان کے سائے بھی عمران خان کے ساتھ ہو جائیں گے اسی ڈر اور خوف کی وجہ سے سارے سیاسی پنڈت بشمول مولانا ڈیزل کے سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ اپنی جانب بڑھنے والی اس ”عمرانی موت“ کو کس طرح سے روکا جائے؟ کس طرح سے اس کا نہ صرف خاتمہ کیا جائے بلکہ اسے اس طرح سے نشان عبرت بنایا جائے کہ پھر کسی اور کو اس راہ پر چلنے کی ہمت اور جرات نہ ہو، ان سیاسی پنڈتوں کو اچھی طرح سے علم ہے کہ عمران خان ایک سچا اور ایماندار سیاستدان ہے اور اسے پاکستانی عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے اسی وجہ سے انہیں ان انتخابات میں بھاری ووٹوں سے کامیاب کروایا ہے لیکن انہیں تو اپنی فکر کھائے جارہی ہے کہ اگر عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد سارا ملکی بجٹ عوام کی فلاح و بہبود پر لگا دیا اور ملکی اداروں کو آئین اور قانون کے تابع کردیا تو ہمارا اور ہمارے حلقہ احباب کا کیا بنے گا؟ اس لئے کہ ہم قانون بنانا تو جانتے ہیں مگر اس پر عملدرآمد کرنا نہیں۔ اس طرح سے تو ہم لوگ ہر روز اداروں سے متصادم ہوتے رہیں گے۔ دراصل ان سیاسی پنڈتوں کو اس طرح کی کسی بھی تبدیلی سے خوف ہے جس میں عوام ان سے ان کی کارگزاری سے متعلق سوال کرسکیں؟ ان سے ان کی بیویوں کی تعداد اکاﺅنٹ کے حساب کے بارے میں جان سکے۔۔۔ وہ تو جمہوریت اور اس کے طفیل قانون سازی کے ہتھیار سے اپنے عوام سمیت اداروں کو خاموش کروانے کے فن سے آشنا تھے اسی وجہ سے وہ قانون سازی کے ہتھیار کو خود سے الگ کرنے کو تیار نہیں تھے، بڑے عرصے بعد کوئی اجنبی اور نیا پنچھی بھی اس کھیل میں شامل ہو گیا جو وزیر اعظم کے وسیع تر اختیار کے ساتھ منظر پر جلوہ افروز ہونے جارہا ہے۔ یہ سوچ سوچ کر یہ سارے سیاسی پنڈت بار بار اکھٹے ہو رہے ہیں اور یہ منصوبہ بندی کررہے ہیں کہ کس طرح سے ملکی عوام کو عمران خان کے سحر سے باہر نکالیں؟ کس طرح سے وہ اپنے زرخرید میڈیا کے ذریعے ملکی عوام کو عمران خان اور اس کی پارتی سے گمراہ کریں کہ وہ اس کا نام بھی سننا پسند نہ کریں وہ اپنے میڈیا کو عمران خان کے کردار کشی کے لئے تو بدستور استعمال کررہے ہیں لیکن سوشل میڈیا ان کی خوشیوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے عمران خان اور ان کی پارٹی کا پیغام برق رفتاری سے پاکستان سمیت پوری دنیا میں پھیل رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ملکی عوام سمیت پوری دنیا نے عمران خان کو ذہنی اور دلی طور پر پاکستان کا وزیر اعظم تسلیم کر لیا ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے ملکوں کے سفیروں کا بنی گالہ میں عمران خان سے ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کالم کی اشاعت تک یوم پاکستان کی خوشیاں بھی ملکی عوام منا چکے ہوں گے اور نئی حکومت بھی تشکیل پا چکی ہو گی اور عمران خان بحثیت وزیر اعظم پاکستان قوم سے خطاب کر چکے ہوں گے اور ملک میں حقیقی معنوں میں عوامی راج کی شروعات ہو چکی ہو گی جب کہ اپوزیشن ملکی عوام کی فلاح کے بجائے ان کے ترقیاتی کاموں میں شدو مد سے رکاوٹیں ڈالنے کا آغاز کرچکی ہوں گی۔
