جب انسان اور قومیں بے سمت ہو جاتے ہیں اور ان کی مرکزیت ختم ہو کر محض خواب و خیالات میں زندہ رہنے کو ہی زندگی سمجھنے لگتے ہیں تو ان کی حالت صحراءمیں بھٹکتے ہوئے ان لوگوں اور گروہوں کی سی ہو جاتی ہیں جنہیں وہ دور بہت دور سراب نظر آنے لگتے ہیں جنہیں ان کی پیاس کی طلب اور سکون کا حصول پانی دکھائی دینے لگتا ہے جس کی طرف وہ اندھا دھند دوڑنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنی ختم ہوتی ہوئی توانائیوں کو زوال کی آخری حد تک لے جاتے ہیں تاکہ اپنی تشنگی بجھا سکیں مگر جب وہ وہاں پہنچتے ہیں وہ سراب انہیں ایک بار پھر دور بہت دور نظر آنے لگتا ہے مگر وہ اس وقت اپنا سب کچھ گنوا کر مہض موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔
یہی صورت حال آج کل ہماری قوم کی ہے اس کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ
چلتا ہوں چار گام ہر ایک راہ روکے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں
یہ نادان گروہ انسانی چھوٹے چھوٹے دلاسوں، آسروں اور اُمیدوں کے ساتھ اس نامعلوم منزل کی طرف اندھا دھند روانہ ہو جاتے ہیں جو انہیں جھوٹے خواب دکھا کر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں اور انہیں ان لقموں کی بشارت دیتے ہیں جنہیں وہ دوسروں کی بدولت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور مطلب نکل جانے کے بعد انہیں حیران و پریشان چھوڑ کر ان کو گلے لگا لیتے ہیں جو ان کے خون کے پیاسے اور انہیں نیست و نابود کرنے کے درپے ہوتے ہیں اور یہ کھیل آج سے نہیں بلکہ پون صدی سے کھیلا جارہا ہے۔ کہتے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا، یہ احمق قوم تو ان سوراخوں سے بار بار ڈسی جاتی رہی ہے مگر پھر بھی اس کا دل نہیں بھرا۔ حسرت آزاد میں یہ اب بھی اپنی انگلیاں فگار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ انسانوں کی ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے جو اذیت سے تلفرز حاصل کرتا ہے یعنی خود کو تکلیف پہنچا کر اسے تسکین ہوتی ہے اور وہ خود اذیتی میں بھی لطف اندوز ہوتا رہتا ہے جیسے کہ کچھ لوگ خود کو سانپ سے ڈسوا کر وہ لذت محسوس کرتے ہیں جیسے کہ نشے کے عادی نشہ آور اشیاءکے استعمال سے اور یہ سانپ سے ڈسوانے والے بھی خود اتنے زہریلے ہو جاتے ہیں کہ اگر یہ کسی کو ڈس لیں تو وہ مر جائے۔
کچھ ایسی خود لذتی میں ہماری قوم مبتلا ہو چکی ہے۔ جناب حمایت علی شاعر مرحوم کی ایک غزل کے چند اشعار آج ہماری قومی زندگی، اس کی سوچ اور فطرت کی کیسی عمدہ تشریح کرتے ہیں اور ان کی غالباً ستر پچھتر سال قبل کہی ہوئی یہ غزل الہامی معلوم ہوتی ہے گویا کہ انہیں الہام ہوا تھا کہ یہ پاکستانی قوم ایک دن اس کلام کی صحیح تشریح کرتی ہوئی محسوس ہو گی۔ اگر انسان ان الفاظ کو پاکستان پر منطبق کرے گا تو اسے محسوس ہو گا کہ اس کلام کا ایک الفاظ اس قوم کے کردار اور خیالات اور تصورات پر پورا کرتا ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے ہی کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
ہر قدم ہر اک نئے سانجے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
کس لئے کیجئے کسی گمشتہ جنت کی تلاش
جب کہ مٹی کے کھلونوں سے ہی بہل جاتے ہیں لوگ
شاعر ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
آج آپ ذرا اس بھٹکتی ہوئی سرابوں کی تلاش میں سرگردان قوم کو دیکھ لیجئے کہ اس الفاظ ہی زندہ تعبیر نظر آتی ہے۔ یہ ہر حکمران کو اپنا نجات دہندہ والی وارث اور مسیحا سمجھ کر اس کے پیچھے لگ جاتی ہے یہ ان کے کھوکھلے نعروں، سنہری خوابوں کی تعبیر دینے کے وعدوں اور سبز باغ دکھا کر انہیں احمق بنانے والوں کو زندہ باد، آوے ہی آوے اور قدم بڑھاﺅ ہم تمہارے ساتھ ہیں کہ جیسے الفاظ سے کندھوں پر بٹھا لیتے ہیں اور بعد میں وہ رہبروں کے روپ میں رہزن انہیں صحرا کے بگولوں کے سپرد کرکے آگے چلے جاتے ہیں اور پھر ان کے ارمانوں، امیدوں اور خوابوں کے ڈھانچے ان ریگزاروں میں گزرنے والوں کے لئے عبرت کے نشان بن جاتے ہیں مگر پھر ان کی آنے والی نسلیں اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتیں اور ایک مرتبہ پھر ان کا حال یہ ہوتا ہے۔
پھر کر ”رہیں“ وحشت تنظیم گلستاں
پھر بو رہے ہیں جان کو کانٹے بہار میں
یہ ڈرامہ بار بار دھرایا جاتا ہے اور بار بار وہی قانون قدرت کے تحت نتیجہ سامنے آتا ہے کہ تم جیسا بو گے ویسا ہی کاٹو گے۔ یہ کبھی کسی زانی، شرابی اور ڈاکو کو اپنا رہبر بنا لیتے ہیں اور اندھوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے روانہ ہو جاتے ہیں اور وہ انہیں ایسی گھاٹی میں لے جا کر مار دیتا ہے جہاں سے نکلنے کی ہی کوئی راہ نہیں ہوتی۔ کبھی ایسے ایسے جاہلوں کو سر پر چڑھا لیتے ہیں جو خود کو بعد از خدا بزرگ گردانتے ہیں اور یہ ان لٹیروں کے لئے ”میاں کے ڈھول بجیں گے‘ نعرے لگاتے لگاتے اپنے گلے پھاڑ لیتے ہیں اور جب میاں ان کا سب کچھ لوٹ کر نکل لیتا ہے تو اس کی اولاد کے پیچھے لگ لیتے ہیں جو ان کا رہا سہا چھین کر انہیں مادر زار ننگا کر دیتے ہیں۔ غرض احمقوں کی یہ قوم اپنی سزا خود ہے یہ زہر میں بجھے لوگ اب غیروں کے بجائے اپنوں کو ڈس ڈس کر اپنی حیوانی پیاس بجھا رہے ہیں ان کا اب کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ اب پوری دنیا کے لئے عبرت کا نشان بن کر رہ گئے ہیں ان کی مثالیں ان قوموں کی طرح دی جایا کریں گی جس کے متعلق اللہ کی کتاب میں لکھا ہے کہ ”کیا تم ان بستیوں سے عبرت حاصل نہیں کرتے جنہیں نشان عبرت بنا دیا گیا ہے جنہوں نے اللہ کے احکامات کو نظر انداز کیا، جنہوں نے اپنے رسولوں اور نبیوں کو جھٹلایا، جنہوں نے احکامات خداوندی کا استہزاد کیا اور بندگان خدا کو تڑپا تڑپا کر ہلاک کیا یہ نشان عبرت ہیں آنکھوں والوں کے لئے“ مگر کیا کیجئے کہ ہم آنکھیں رکھتے ہوئے بھی کور چشم ہیں۔ دماغ رکھتے ہوئے بھی بے عقل ہیں، بے حد پتھر کی طرح بے حس ہیں ہم وہ ہیں جن پر عذاب الٰہی انہی کے ہاتھوں سے آرہا ہے مگر یہ اب بھی خدا کے بجائے انسانوں کو سجدے کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
