پاکستان میں ”اسٹیٹس کو“ کو توڑنا انتہائی مشکل کام ہے جس کا اندازہ مجھے عمران خان کے وزیر اعظم بننے اور اس کے فوری بعد ان پر کیے جانے والے تابڑ توڑ حملوں کو دیکھ کر ہوا، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس ”اسٹیٹس کو“ کی آب یاری جہاں روایتی اور موروثی سیاستدانوں نے کی وہیں اس میں ایک بڑا کردار پاکستان کی مضبوط ترین میڈیا کا بھی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت اپوزیشن سے زیادہ میڈیا کا ایک بڑا پاور طبقہ عمران خان کی مخالفت برائے مخالفت میں لگا ہوا ہے اور ان کا یہ انداز صحافت اس وقت بغض اور تعصب کا ایک چلتا پھرتا اشتہار بن گیا ہے اور وہ اپنے بغض میں اتنے اندھے ہو گئے ہیں کہ وہ یہ فرق کرنا بھی بھول گئے کہ کسی تین سالہ بچے کا موازنہ 50 سالہ شخص سے نہیں کروایا جا سکتا۔ عمران خان کو زیر اعظم بنے اور حکومت سنبھالنے ابھی پندرہ روز بھی نہیں ہوئے اور ان کا موازنہ تیس تیس سالہ پرانے حکمرانوں سے کروایا جارہا ہے جو کسی بھی لحاظ سے درست نہیں اور نہ ہی یہ صحافتی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ میں نے اپنے طور پر جب اس کی وجوہات معلوم کی تو پتہ چلا کہ جس طرح سے سیاستدانوں کا ذاتی مفاد ملکی مفاد پر غالب آ جاتا ہے وہی حال میڈیا کے اس مخصوص طبقے کا بھی ہے جن کا ذاتی مفاد صحافتی اصولوں پر غالب آگیا ہے۔ اس لئے کہ نئے وزیر اعظم نے بیرون ملک اپنے ساتھ صحافیوں کے لے جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ میڈیا کے اشتہارات بند کر دیئے ہیں اور یہ سارے اقدامات حکومتی اخراجات کم کرنے کے تناظر میں کئے گئے ہیں۔ ان اقدامات کے ذریعے بعض میڈیا ہاﺅسز کے اقتدار سے بے دخلی ہی ان کی توپوں کی حکومت کی جانب موڑے جانے کا باعث بنی ہے اور اب ان کا ایجنڈا بن گیا ہے کہ عمران خان کی مخالفت کی جائے اور ڈٹ کر کی جائے یہی وجہ ہے کہ نان ایشوز کو ایشوز بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور حکومتی بڑے بڑے اقدامات کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر کے استعمال کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے مگر ان کے تین کمروں کے مکان میں رہائش اختیار کرنے اور معمولی سا پروٹوکول لینے کو نظر انداز کیا جارہا ہے سب سے بڑھ کر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی غلطی پر اسے ٹوکنے کے جرات مندانہ عمل کو بھی میڈیا میں اس طرح سے کوریج نہیں دی جارہی ہے جو اس طرح کی خبروں کا حق ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کر آج تک کسی پاکستانی وزیر اعظم نے گستاخانہ خاکوں پر اس طرح کا ردعمل ایوان میں نہیں دیا جس طرح سے عمران خان نے دیا۔ اسے بھی گول کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ سب اس لئے لکھ رہا ہوں تانکہ قارئین کو معلوم ہو کہ پاکستانی میڈیا کس طرح سے ”اسٹیٹس کو“ کو گرنے سے بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ دوسری بڑی وجہ ایف آئی اے کا وہ منی لانڈرنگ کیس ہے جس میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور پہلے ہی زیر تفتیش ہیں اور بعض میڈیا ہاﺅسز کے پورے کے پورے ٹبر ہی ایف آئی اے کے اس منی لانڈرنگ کیس کی زد میں آرہے ہیں جن کے خلاف ناقابل تردید دستاویزی شواہد بھی ایف آئی اے کے ہاتھ لگ گئے ہیں یہ ساری وجوہات ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے بعض میڈیا ہاﺅسز اپنی خبروں اور ٹاک شوز میں کیے جانے والے تبصروں اور تجزیوں سے صورتحال کو خراب کرکے حکومت وقت اور ایف آئی اے کو زیر اثر لانے کی کوشش کرکے اپنے وہائٹ کالر جرائم سے خود کو بچانے کے لئے صحافت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ شکر ہے کہ اس کا ادراک حکومت وقت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ اور خود ایف آئی اے کے افسران کو بھی ہے اس لئے وہ ان دھونس اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی کارروائی کو آگے بڑھا رہے ہیں ان میڈیا ہاﺅسز سے کوئی بعید نہیں کہ جب ان پر ایف آئی اے یا دوسرے سیکیورٹی فورسز نے ہاتھ ڈالا تو یہ فوراً ”آزادی اظہار رائے“ پر حملہ کرنے کا واویلا کریں گے اور یہ امکان بھی غلط نہیں کہ آئے روز نان ایشوز کو ایشوز بنا کر حکومت کے خلاف محاذ آرائی کرنے کا مقصد پہلے سے یہ جواز پیدا کرنا ہے کہ اگر ایف آئی اے نے انہیں یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو منی لانڈرنگ کیس میں تفتیش کے لئے بلایا یا گرفتار کیا تو وہ با آسانی یہ کہہ دیں گے کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی جارہی ہے ان کی آواز کو دبانے کے لئے یہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جارہا ہے جب کہ ان عقل کے اندھوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایف آئی اے کی منی لانڈرنگ کیس کا آغاز عمران خان کے حکم پر نہیں بلکہ یہ تو نواز شریف کے دور حکومت میں ہوا تھا اس لئے اس کا الزام بھی موجودہ حکومت پر لگانا مضحکہ خیز ہوگا۔ میرے ذاتی خیال میں عمران خان ان تمام تر صورتحال کو بالکل ہی خاطر میں نہیں لا رہے ہوں گے بلکہ وہ تو اپنے ٹارگٹ پر توجہ مرکوز کئے ہوں گے کہ وہ کس طرح سے سو (100) دن میں پاکستانی قوم کو اپنی حکومت کی کوئی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ نئی تبدیلیوں کے لئے کوششیں کررہے ہیں، میڈیا ہاﺅسز کی مخالفت بقول معروف شاعر کے
عرضی توما اندیش زغوغائے رقیباں
آواز سگاں کم نہ کہنہ رزق گدارا
یعنی کتوں کے بھونکنے سے کبھی فقیر کا رزق کم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان ان بے مقصد کی مخالفتوں کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں اور وہ مسلسل اپنے گول کو سر کرنے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو دشمنوں سے زیادہ اپنوں سے خطرہ ہے اس لئے ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں اپنے پروٹوکول کو کم کرنے پر سیکیورٹی اداروں کو تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود عمران خان نے غریب قوم کا سرمایہ بچانے کے لئے خود بھی کم سے کم پروٹوکول لینے اور سادگی سے رہنے کی عادت اپنائی ہے اور اپنے وزراءاور گورنرز کو بھی اسی راہ پر چلنے کی تلقین کی ہے یہ وہ تبدیلیاں ہیں جو ”اسٹیٹس کو“ کو ہلا رہی ہیں جس کی سیاستدانوں کے علاوہ بعض میڈیا ہاﺅسز اپنے قول و فعل کے ذریعے مخالفت کررہے ہیں۔ کابینہ کا اجلاس ہفتے میں دو بار بلانا اور وزراءکی کارکردگی معلوم کرنا اور خود کو ایوان کے روبرو جواب دہ ہونا، عمران خان حقیقی معنوں میں جمہوری قدم ہے۔ جس کے لئے یہ ایوان اپنے قیام کے بعد سے ترس رہی تھی۔ یہ کہا جائے کہ عمران خان نے جمہوریت میں جمہور (عوام) کی روح پھونک دی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ میرے خیال میں تو عمران خان جہاں پاکستان کے اردگان اور مہاتیز محمد بن گئے ہیں وہیں وہ اپنے بعض فیصلوں کی وجہ سے جسٹن ٹروڈو بھی بن گئے ہیں۔ عوام سے اتنی سی گزارش ہے کہ وہ شرارتی میڈیا ہاﺅسز کے بہکاوے میں نہ آئیں بلکہ ان کا بائیکاٹ کرکے انہیں ان کی غلطیکا احساس دلائیں مگر سوشل میڈیا والا گرا ہوا رویہ نہ اپنائیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اپنے احتساب کے عمل کو بجلی کے 440 واٹ کی طرح سے اور بھی تیز کردیں تانکہ ملکی عوام کو ان کی دولت پر ہاتھ صاف کرنے والوں کی چیخیں سننے کو ملیں۔
513