کرونا کے اس تباہ کن صورتحال کے دوران ایک واقعہ اور اس کے نتیجے میں بننے والی خبر نے مجھے بالخصوص اور کراچی کی صحافی برادری کو بالعموم ہلا کر رکھ دیا۔ وہ واقعہ اور خبر بزرگ صحافی علی اختر رضوی کے لندن کے ایک ہسپتال سے ملک عدم روانگی یعنی ان کے مالک حقیقی سے جا ملنے کی تھی۔ اس خبر نے میری جیسے پیروں تلے سے زمین ہی کھسکا دی ہوں اور ایسا کیوں نہ ہو؟ ان کا درجہ میرے لئے استاد کا تھا اور استاد باپ کے برابر ہوتا ہے۔ ایسے لگا جیسے سر سے باپ کا سایہ دوسری بار اٹھ گیا ہو۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ 19 اپریل 1990ءکو میرے والد کے انتقال والے روز وہ پوچھتے پچھاتے کسی طرح سے میرے گھر کیماڑی میں میرے غم میں شریک ہونے کے لئے پہنچ ہی گئے تھے۔ میرا مرحوم کے ساتھ کم و بیش بیس سالوں کا طویل ترین ساتھ رہا، مجھے صحافت کے داﺅ پیج خاص طور سے خبر نکالنے اور اسے ہر طرح کے رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اخبار کی زینت بنانے کی طاقت کا حوصلہ انہوں نے ہی دیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بے خوف و خطر اور بے باک صحافت کے علمبردار تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں ورکنگ جرنلزم کے بانی تھے۔ وہ پیشہ ور صحافیوں کو ڈرائنگ رومز کے بجائے میدان میں رکھنے اور رہنے کے حامی تھے ان کا کہنا تھا کہ جو صحافی کلبوں کی سیاست میں پڑ جاتے ہیں وہ پھر صحافت کی شارع سے اُتر جاتے ہیں ان میں اور زمینی حقائق پر مبنی خبروں میں پھر فاصلے بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اپنے استاد کا احترام اور ان کے اصولوں اور ہدایات پر عقیدت کی حد تک عمل کرنے کی وجہ سے میں اپنے پورے پیشہ ورانہ زندگی میں کبھی بھی پریس کلب سمیت کسی بھی صحافتی آرگنائزیشن کا ممبر نہیں بنا۔ یہ ہی حال مرحوم کے دوسرے شاگردوں کا بھی تھا۔ مرحوم علی اختر رضوی سے میری ملاقات روزنامہ مشرق کراچی کے معروف کورٹ رپورٹر علی حمزہ خان نے کروائی تھی ان دنوں میں انقلاب اخبارمیں کام کررہا تھا اور کورٹ رپورٹنگ کی وجہ سے میری علی حمزہ خان سے آئے روز سٹی کورٹ میں ملاقات ہوا کرتی تھی ان ہی دنوں یعنی 1984ءمیں مشرق کراچی نے شام کا اخبار ایوننگ اسپیشل نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کے لئے انہیں کرائم رپورٹرز کی ضرورت تھی اور روزانہ نئے نئے کرائم رپورٹرز جاتے اور علی اختر رضوی اور ان کے دست راست مسٹر اطیب کے سامنے پیش ہو کر ان کے معار کے آگے پسپائی اختیار کرکے واپس لوٹ جایا کرتے تھے۔ علی حمزہ خان صاحب مجھے اپنے ہمراہ روزنامہ مشرق کے دفتر میں علی اختر رضوی کے کمرے میں لے گئے اور کہنے لگے ”چیف صاحب آپ کے لئے ایک تحفہ لایا ہوں انہیں بھی ذرا آزما لیں۔ علی اختر رضوی صاحب نے میری جانب جس انداز سے دیکھا میں تو گھبرا ہی گیا اس لئے کہ میں جس حلیے میں وہاں گیا تھا اس سے کام کا ملنا تو کجا، کوئی بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے مسٹر اطیب نے مجھے دیکھتے ہوئے عجیب سا منہ بنا لیا تھا۔
خیر اوپر والے کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اسی وجہ سے میں علی اختر رضوی صاحب کے معیار پر پورا اترا جس کا فیصلہ انہوں نے میری ایک ہفتے کی رپورٹنگ دیکھنے کے بعد کیا اور خبروں کے تحریر کے حوالے سے مجھے براہ راست مسٹر اطیب کی نگرانی میں دے دیا تاکہ میری خبر بنانے کی ترتیب، املا درست ہو۔ جسے صحافتی زبان میں نوک پلک سنوارنا کہتے ہیں اس طرح سے میں براہ راست علی اختر رضوی کے زیر نگرانی آگیا یعنی ان کی شاگردی میں آگیا اور اس طرح سے ان کے زیر سایہ میں اپنے فیلڈ میں اللہ کے فضل و کرم سے اُبھرتا ہی چلا گیا۔ شوگر اور بلڈ پریشر کی وجہ سے غصہ میں پلکتے چھپکتے آنا ان کا معمول تھا۔ اسی لئے ان کے مزاج کا خیال رکھنا پڑتا تھا تاکہ ان کے غصیلی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے یہ بات بھی درست ہے کہ ان کا غصہ بلاجواز نہیں ہوا کرتا تھا ان کا غصہ سامنے والے کی کسی بہت بڑی غلطی کا ہی نتیجہ ہوا کرتا تھا۔ بہرحال ان کے غصے سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو مل جایا کرتا تھا۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں وہ ان کے غصے ہی کا نتیجہ ہے۔ یہ حالات اور یہ واقعات جو گرچہ اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں لیکن علی اختر رضوی کے اس طرح سے دنیا سے چلے جانے سے ایک دم نظروں کے سامنے گھومنے لگ گئے ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ کل کی بات ہو مگر اس کل میں کسی کی پوری زندگی شامل ہے۔ علی اختر رضوی اپنے ذات میں ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے انہوں نے ان گنت شاگرد چھوڑے ہیں جو اس وقت اپنے اپنے فیلڈ میں بلندیوں پر ہیں۔ مرحوم تحقیقاتی رپورٹنگ کے دلدادہ تھے ان کا میگزین ”انکشاف“ جس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مجھے بھی شروع ہی سے تحقیقاتی رپورٹنگ کا شوق تھا اسی وجہ سے میرا ذوق علی اختر رضوی کے زیر نگرانی خوب پروان چڑھا وہ اپنے آخری دنوں میں جانباز گروپ سے وابستہ تھے انہوں نے اس ادارے کو بھی اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی وجہ سے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
مرحوم ایک با صلاحیت اور محنتی صحافی کے ساتھ ساتھ شفیق والد اور محبت کرنے والے شوہر بھی تھے ان کی تربیت کی وجہ سے ان کے بیٹے آج اپنے اپنے فیلڈ میں بلندیوں پر ہیں۔ علی اختر رضوی کے انتقال کی خبر مجھے مرحوم اور اپنے مشترکہ دوست نقی چاند کے ذریعے ملی جس کے بعد ہی اخبارات کے ذریعے مزید خبریں پڑھنے کو ملی۔ گرچہ میں نے نقی چاند سے وعدہ کیا تھا کہ میں اپنے استاد کے ساتھ گزارے شب و روز سے متعلق کالم ان کے اخبار کے لئے لکھوں گا لیکن اب میں اپنے اس وعدے کا پاس نہیں کر پا رہا۔ اس لئے کہ مجھے اب کوئی اور موضوع اپنے شفیق استاد کے یاداشتوں کے مقابلے میں مل ہی نہیں رہا ہے کہ جسے لکھ سکوں اس لئے میں اسی کالم کو اپنے اخبار کی زینت بنا رہا ہوں جس کے لئے میں نقی چاند سے معذرت خواہ ہوں۔
آج کا یہ کالم میرے معمول کے کالموں سے ذرا ہٹ کر ہے جس کی وجہ ہے اور وہ پڑھنے والے بخوبی جانتے ہیں۔ علی اختر رضوی کے انتقال سے جس طرح کا خلاءپیدا ہوا ہے اس کا بھرنا ممکن نہیں ہوگا۔ صحافت کے شعبے میں نئے آنے والے نوزائیدہ صحافی ایک مخلص اور بے لوث استاد سے محروم ہو گئے اور بہت سارے مجھ جیسے حادثاتی صحافیوں کا اب بننا اور اس کے بعد آگے بڑھنا مشکل ضرور ہو گیا ہے۔ آخر میں اتنا ہی لکھوں گا کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور دیار غیر کے اس سفر میں ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور ان کے گھر والوں کو ان کی جدائی کا صدمہ سہنے کی توفیق دے۔ آمین
