آج کا یہ کالم عورت مارچ کے حوالے سے لکھ رہا ہوں گرچہ 8 مارچ گزر چکا مگر ملک میں اس حوالے سے بحث و مباحثہ کا سلسلہ ابھی جاری ہے اسی وجہ سے میں بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا ضروری خیال کرتا ہوں کالم کے ابتداءمیں ہی یہ عرض اور وضاحت کرتا چلوں کہ اس کالم کے لکھنے کا مقصد خدانخواسطہ کسی کی دل آزاری نہیں۔ میں بھی عورتوں سے اتنی ہی محبت اور اتنی ہی ان کی عزت کرتا ہوں جتنا وہ کسی بھی مرد کا احترام اور ان سے محبت کرتی ہے اب اگر ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے ”عورت مارچ“ کا آسان اردو میں کسی ان پڑھ یا گنوار کو سمجھانے کے لئے ترجمہ کیا جائے تو وہ بنے گا ”عورت گشت“ اور گشت کرنے والی عورت کو جس نام سے پکارا جاتا ہے یا جو کہا جاتا ہے ہمارے معاشرے کے عملی زندگی میں اسے کسی بھی لحاظ سے اچھا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے ایک طرح کی گالی ہی گمان کیا جاتا ہے کہ فلاں کی بیوی یا بہن تو گھومتی رہتی ہے۔۔۔ صرف گشت کے آگے ایک ای بڑھانے سے یہ سیدھی سادی گالی بن جاتی ہے اب ذرا اس سلوگن کا ذکر کر لیتے ہیں جس کو لے کر بڑا چرچا کیا جارہا ہے ”میرا بدن میں مرضی“ یا ”میرا جسم میری مرضی“ یہ جملہ یا نعرہ یا سلوگن کسی صحت مند ذہن کی نہیں بلکہ بیمار ذہن کی اختراع ہے اور یہ سلوگن پاکستانی عورتوں پر تھوپ کر ان کی بے عزتی کی گئی ہے یہ ایک اس طرح کا سلوگن ہے کہ جسے پیرس اور لندن میں عریاں گھومنے والی عورتیں بھی لینے کو تیار نہیں ہونگیں عورت کو اس طرح کے سلوگن یعنی اپنے جسم کے حد تک محدود رکھنا یا پر اس کی شناخت کو محض اس کا جسم بنا دینا یہ ایک بہت بڑی رسوائی ہے۔ عورت ایک جانور نہیں ہے قربانی کے جانوروں کی بولیاں ان کے وزن کے لحاظ سے لگائی جاتی ہیں اس لیے کہ اس کا گوشت کھایا جاتا ہے اس طرح کے سلوگن کی پرچار کرنے والی عورتیں کیا خود کو استعمال کرنے یعنی کھانے پینے کی شے باور کروانا چاہتی ہیں۔۔۔؟ کیا اس طرح کا سلوگن اس طرح کی عورتوں کے دستیابی کا چلتا پھرتا اشتہار نہیں۔۔۔؟ اس لئے میں اپنے پاکستانی مسلمان بہنوں ماوﺅں اور بیٹیوں سے درمندانہ طور پر گزارش کرتا ہوں کہ خدارا ان مغرب زدہ این جی اوز والی آنٹیوں کے بہکاوے میں نہ آئیں یہ اپنے گھروں کو اجاڑنے کے بعد دوسروں کے بنے بنائے گھروں کو اجاڑنے کے مہم پر نکل پڑی ہیں۔ ان این جی اوز آنٹیوں کی اگر برائیوگرافی نکلوائیں تو ان میں سے آدھی سے زیادہ تو طلاق یافتہ نکلیں گیں اور باقیوں نے دوسری عورتوں کا گھر اجاڑ کر وہاں دوسری یا تیسری شادیاں کر رکھی ہونگیں اس طرح سے کرنے کے بعد اب وہ کس منہ سے عورتوں کے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکل آئیں ہیں میں عورتوں کو غیر ضروری طور پر دبانے اور ان پر ظلم و زیادتی کے بھی خلاف ہوں عورتوں کو اسلام نے جو حقوق دیئے ہیں میں اس کا سب سے بڑا حامی ہوں عورتوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئے رشتہ جوڑنے میں عورتوں کی رضا مندی بہت ضروری ہے عورت اور مرد دونوں گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے اور نا مکمل ہیں اسی لئے دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ضروری ہے مغرب میں عورتوں کی اندھی آزادی نے خاندان نظام کا بٹہ بٹھا دیا ہے وہاں رشتے دم توڑ رہے ہیں لڑکیوں کے کان بہن کے لفظ اور لڑکوں کے کان بھائی کے لفظ سننے کو ترس گئے ہیں اس طرح سے باپ بیٹی کے لفظ کو سننے کے لئے پاگل ہوتا جارہا ہے یہ نہیں کے وہاں یہ فطرے رشتے نہیں۔ یہ رشتے ضرور ہیں مگر ان میں اتنا زیادہ خلا آچکا ہے کہ یہ تقریباً ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہو چکے ہیں جس کی وجہ وہاں باضابطہ شادیاں کرنے کے بجائے گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ یعنی کامن پارٹنر کا رسوائے زمانہ طریقہ کار رائج کرنا ہے جیسے ہمارے ہاں کے مشرقی معاشرے میں کسی کو داشتہ بنا کر رکھنا۔۔۔ اور اس رسوائے زمانہ سلوگن ”میرا جسم میری مرضی“ کا اختتام اسی طرح کے بند گلی پر جا کر ہوتا ہے جہاں سے انسانی رشتے فنا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اس لئے پاکستانی عورتوں کو خود کو اس فتنہ سے بچانے کی ضرورت ہے جو ان کی نسلیں برباد کرنے کے لئے ان سے ہمدردی کرنے کے بہانے سرگرم عمل ہے اور پاکستان کے میڈیا کا ایک موثر ترین گروپ ان کے سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے اس لئے کہ ان کی ڈالروں میں فنڈنگ کی جارہی ہے اس سلسلے میں دینی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ خود کو لبرل کہلوانے والی سیاسی جماعتوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی خواتین میں آگاہی پیدا کریں اور انہیں این جی اوز کے ہاتھوں گمراہ ہونے سے بچائیں ان کے جائز مطالبات کے حل کے لئے دونوں ایوانوں میں آواز بلند کریں جب کہ عمران خان کو چاہئے ملکی خواتین کے جائز مطالبات حل کروائیں جس طرح سے انہوں نے خود کفالت پروگرام کے تحت ملک کی بیوہ اور نادار عورتوں کے لئے بہبود فنڈز کا اجراءکیا ہے اسی طرح سے وہ پڑھی لکھی خواتین پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بھی کھلوادیں اور مردوں کے مقابلے میں ان کے سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لئے آسانیاں پیدا کریں اس لئے کہ مطمئن خواتین بھی ایک اچھے معاشرے کے تشکیل اور اس کی نشوونما پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں اس لئے خواتین کو اسلام اور شریعت میں دیئے گئے اختیارات کے مطابق ساتھ لے چلنے کی ضرورت ہے تاکہ دشمنوں کو انہیں اپنے ناپاک مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا موقع نہ مل سکے حکومت کو بھی اس طرح کے این جی اوز کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستانی معاشرے میں بگاڑ کا ابعث بن رہے ہیں اس طرح کے اداروں پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے جو ملک کے سلامتی سے کھلواڑ کررہے ہیں اور اس طرح کے میڈیا کو بھی لگام دینا چاہئے جو معاشرہ کو بے حیائی کے آگ میں دھکیلنے کا باعث بن رہے ہیں۔
338