پاکستان پر دولت کے بل بوتے پر حکمرانی کرنے والا لٹیرا نواز شریف جو آج سلاخوں کے پیچھے بیٹھا ہوا اپنے کئے کی سزا بھگت رہا ہے، جہاں اس کی بیٹی اور داماد بھی اس کے کردار کے سیاہ کارناموں میں شریک کار کی حیثیت سے مقید ہے، یہ شخص جس نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا اور جو ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگا کر ”مجھے کیوں نکالا“ کی تکرار کرتا رہا ہے، ایک عہد شکن، جھوٹا، محسن کش اور انتہائی خودغرض شخصیت کا مالک ہے۔ پنجاب کی با اثر شخصیت اور سیاست داں چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب ”سچ تو یہ ہے“ میں اس کے جو ”کارنامے“ لکھے ہیں اسے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح یہ شخص پاکستان کے بیس کروڑ افراد پر نحوست کی طرح مسلط رہا۔ یہ جو خود کو جمہوریت زادہ کہلاتا ہے محض اپنی دولت کے بل بوتے پر فوجیوں کی سفارش پر اقتدار میں آیا۔ چوہدری صاحب نے اپنی کتاب کے باب ”نوازشریف کی مسلسل عہد شکنی“ میں لکھا ہے کہ 1985ءکے انتخابات میں جو غیر جماعتی بنیاد پر ہوئے تھے ان کے گروپ نے سب سے زیادہ اکثریت حاصل کی تھی، جس کے تحت چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننا تھا مگر بریگیڈیئر (ر) قیوم اور گورنر پنجاب غلام جیلانی نے ان سے رابطہ کرکے کہا کہ وزیر اعلیٰ نواز شریف کو بنا دیں جب کہ نہ اس کا کوئی گروپ تھا اور نہ ہی اس کا کوئی ایسا سیاسی بیک گراﺅنڈ تھا کہ پنجاب جیسے صوبے کا وزیر اعلیٰ اسے بنایا جاتا۔ چوہدری شجاعت حسین کے مطابق انہوں نے ان سے کچھ مہلت مانگی جس کے بعد ہم نے نواز شریف کے والد محمد شریف کے دفتر میں ایک میٹنگ کی جس میں بریگیڈیئر قیوم، نواز شریف، شہباز شریف اور پرویز الٰہی شریک ہوئے اور ہم نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنانے پر راضی ہو گئے (بریگیڈیئر قیوم مدنظر رہیں) اس موقع پر میاں شریف نے بھی شرکت کی جہاں بعض امور پر کچھ معاملات طے ہوئے۔ اس موقع پر شہباز شریف جلدے سے اٹھے اور کہا ”اگرچہ بہت کچھ طے ہو گیا ہے لیکن پھر بھی تسلی کے لئے قرآن مجید لے کر آتا ہوں تاکہ ضمانت رہے کہ ہماری طرف سے وعدہ خلافی نہیں ہوگی“۔ (ہر جھوٹا اور مکار قسمیں اور حلف اٹھا کر اپنی سچائی کا یقین دلاتا ہے) اس پر پرویز الٰہی نے کہا کہ ”دیکھیں، سیاست میں نہ ہمارے بزرگ قرآن کو بیچ میں لائے، نا ہم نے کبھی اس کی جسارت کی ہے“۔ اگلے روز گورنر جیلانی نے اس میٹنگ کے بارے میں پوچھا، انہوں نے انہیں سارا احول سنایا اور ساتھ ہی شہباز شریف کی قرآن والی بات بھی بتائی، جس پر انہوں نے کہا کہ وہ ضمانت دیتے ہیں کہ وہ وعدہ خلافی نہیں کریں گے، لیکن نواز شریف نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی تیور بدل لئے اور ان کے ساتھ کئے ہوئے معاہدوں کو پس پشت ڈال دیا تاہم چوہدری صاحب کو نواز شریف کے والد میاں شریف اور گورنر غلام جیلانی کے وعدوں پر اعتماد تھا لہذا انہوں نے نواز شریف کی بدعہدیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس دورا معاہدے کے مطابق متعدد کام ہمارے کہنے سے انہوں نے نہیں کئے بلکہ دوسروں کے کہنے سے وہ کردیئے جس سے ہمارا گروپ جو انتہائی طاقتور تھا اور نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنانے کے خلاف تھا ہم سے شکایت کرنے لگا، اس درمیان نواز شریف انہیں نظر انداز کرکے ان کے گروپ کے افراد کو توڑنے لگے۔ اس سلسلے میں جب چوہدری صاحب نے نواز شریف سے بات کی تو وہ اور شہباز شریف قسمیں کھانے لگے اور صفائیاں پیش کرنے لگے تاہم بعد ازاں چوہدریوں کو اس بات کے ثبوت مل گئے کہ شریف برادران اپنے وعدے توڑ کر ان کے گروپ کو کمزور کررہے ہیں۔ ان وعدہ خلافیوں کے بارے میں جب چوہدری صاحبان نے بریگیڈیئر قیوم اور گورنر غلام جیلانی کو بتایا تو وہ بھی انہیں نظر انداز کر گئے اس طرح اقتدار کے نشے میں چور نواز شریف نے صرف چھ ماہ میں اپنے وعدوں سے انحراف کرکے وعدہ خلاف ہونے کا ثبوت دیدیا۔ اس سلسلے میں چوہدری برادران نے جب نواز شریف کے مصنوعی باپ ضیاءالحق سے ان کی شکایت کی تو ضیاءالحق نے کہا کہ وہ خود بھی پنجاب میں نواز شریف کی کارکردگی پر خوش نہیں ہیں اس نے پنجاب کے حالات خراب کر دیئے ہیں اور یہ بھی کہا کہ آپ حضرات مجھے بہت عزیز ہیں آپ بسم اللہ کریں اور نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کریں۔ اللہ آپ کو مبارک کرے چیف منسٹر شپ۔ اس سلسلے میں چوہدری برادران نے تحریک عدم اعتماد کی تیاری شروع کی تو بڑی تعداد میں اراکین اسمبلی ان کے پاس آنے لگے، یہ دیکھ کر نواز شریف کی ہوا نکل گئی اور وہ بھاگا ہوا جنرل حمید گل کے پاس گئے جو اس وقت آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اور صدر ضیاءالحق کے بہت قریب تھے۔ انہوں نے ضیاءالحق سے مل کر انہیں بتایا کہ چوہدری گروپ بہت طاقتور ہے اور وہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے مل کر ضیاءصاحب کے لئے مشکلات پیدا کردیں گے۔ (اس وقت جونیجو صاحب اور ضیاءالحق کے درمیان زبردست کشیدگی بھی تھی) اور اس طرح انہوں نے ضیاءالحق کو نواز شریف کے لئے راضی کر لیا کہ وہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر ضیاءالحق نے لاہورمیں یہ جملہ کہا جو بہت مشہور ہوا ”نواز شریف کا کلا بہت مضبوط ہے اسے میری عمر بھی لگ جائے“۔ اس طرح نواز شریف میں فوجی جنرل کی روح حلول کرگئی۔ ضیاءالحق نے چوہدری سے کہا کہ آپ نواز شریف سے صلح کرلیں بلکہ میں کرائے دیتا ہوں اور وہ پرویز الٰہی اور ان کے ساتھیوں کو وزیر لے لیں گے۔ اس دوران نواز شریف نے ایک بار پھر جنرل جیلانی اور بریگیڈیئر قیوم اور نوائے وقت کے مجید نظامی کے ذریعے ہمیں پیغام بھیجا کہ ہمیں چاہئے کہ اختلاف ختم کردیں کیونکہ اس کے باعث اراکین اسمبلی ہمیں بلیک میل کررہے ہیں لہذا ایک مرتبہ پھر معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ اس ملاقات میں نواز شریف اور شہباز شریف نے باقاعدہ معافی مانگی اور نواز شریف نے دو مرتبہ پرویز الٰہی کا ماتھا چوما لیکن جو وعدہ پر قائم رہیں وہ شریف برادران ہی کہاں، کچھ ہی عرصے کے بعد وہ پھر اپنی پرانی روش پر آگئے اس مرتبہ گورنر جنرل جیلانی نے بھی کہا کہ ہم سے بڑی غلطی ہوئی جو ان کی حمایت میں آگئے انہوں نے کہا کہ ”چوہدری صاحب، جو رویہ انہوں نے آپ کے ساتھ اپنایا ہے وہی رویہ ہمارے ساتھ بھی ہے“ یعنی انہیں بھی اپنی اوقات دکھائی دی۔ جب خبریں اخباروں میں آئیں تو ضیاءالحق نے چوہدریوں کو بلایا اس وقت وہ نواز شریف سے سخت غصے میں تھے اور ان سے انتہائی سخت لہجے میں بات کی اور سرزنش کیا جس پر نواز شریف رونے لگے۔
(باقی آئندہ)
635