عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 246

مکافات عمل کا آئینہ۔۔۔!

مکافات عمل کی اس سے زیادہ بدترین مثال اور کیا ہو سکتی ہے جس کا میں ذکر کرنے جا رہا ہوں کس طرح سے آستینوں میں پلنے والے سانپ جب ڈسنے لگ جاتے ہیں یعنی وہ لوگ جن کی آبیاری آپ خود کرتے ہیں اور جب وہی آنکھیں دکھانے لگیں تو کیسا لگتا ہے۔
قارئین پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جب ایک عدالتی فیصلے کو بنیاد بنا کر تختہ دار پر چڑھایا گیا تو اس کے بعد اس وقت کے حکمرانوں کو یہ فکر کھائے جانے لگی کہ جسے پھانسی دی گئی وہ کوئی معمولی ہستی نہیں ایک بہت بڑی جماعت کا سربراہ تھا اور بہت بڑا سیاستدان بھی تھا اس وقت کے پالیسی سازوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کو کمزور بلکہ تباہ و برباد کرنے کے لئے دو محاذوں پر کام شروع کردیا ایک تو پنجاب جو کہ پی پی پی کی سیاست کا سب سے بڑا مرکز تھا اسے پی پی پی سے چھیننے اور ان کا اثر وہاں سے ختم کرنے کے لئے خاص طور سے کاروباری خاندان یعنی شریف برادران پر ہاتھ رکھا گیا اور ان کی پرورش ہی ایک طرح سے اس وقت کے پالیسی سازوں نے خود کی اس طرح سے کراچی میں پی پی پی کو نکالنے اور صرف اندرون سندھ تک اسے محدود رکھنے کے لئے لسانی جماعتوں کی داغ بیل ڈالی گئی اور ان کی بھی پرورش شروع کردی اور اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے کراچی اور پنجاب میں جن سیاسی پارٹیوں کی آبیاری کی گئی تھی انہوں نے پروان چڑھنا شروع کیا اور خاص طور سے کراچی اور اندرون سندھ قتل و غارت گری کا ایک نہ رکنے ولا سلسلہ شروع ہو گیا اس لسانی فسادات کے شعلوں نے پی پی پی کے علاوہ کراچی میں بسنے والے دوسری قومیتوں کے لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیئے اور اس طرح سے اس لسانی فسادات اور ان کو جاری رکھنے والی لسانی پارٹیوں کی سیاست میں ملک دشمن قوتوں نے بھی شمولیت اختیار کرلی اور اس کے بعد اس بہت بڑی اسٹریٹ پاور کو نہ صرف پاکستان بلکہ ان پالیسی میکروں کے خلاف اسعمال کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا جو خود اس زہر کو پیدا کرنے کے ذمہ دار تھے جن کا مقصد اس زہر سے ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کو زمین دوز کرنا تھا لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی اپنی لگائی ہوئی آگ کے زد میں وہ خود بھی ایک روز آجائیں گے جب کراچی میں میجر کلیم کے اغواءکا واقعہ اور اس کے بعد بلدیہ ٹاﺅن میں ایک حاضر سروس فوجی کپتان اور بلدیہ ٹاﺅن تھانے کے ایس ایچ او محمد صادق کی شہادت کا افسوس ناک واقعہ رونما ہوا تو اس کے بعد اس لسانی زہر کو پیدا کرنے والوں کے ہوش ٹھکانے آگئے کہ وہ کیا غلطی کر بیٹھے اور اس کے بعد ان ہی پالیسی سازوں نے الٹی گنتی شروع کروا دی اور اپنے ہاتھوں تراشے ہوئے بت کو خود اپنے ہی ہاتھوں پاش پاش کردیا اور آج جو صورتحال اس لسانی جماعت یا لسانی گروہ کی ہے وہ کراچی والوں کے سامنے ہے کہ کس طرح سے دال جوتیوں میں بٹ رہی ہے؟ خود اپنے ہی اس شہر میں جہاں وہ پورے چالیس سال تک بلاشرکت غیرے حکمرانی کرتے رہے، خوف و ہراس اور دہشت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے اور پورے شہر کو پوری طرح سے یرغمال بنائے رکھا گیا وہاں وہ اجنبی بنے نظر آرہے ہیں اب لوگ نہ تو ان سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ان کی گیدڑ بھبکیوں میں آرہے ہیں۔ اور نہ ہی انہیں اپنا قیمتی ووٹ اور قربانی کی کھالیں بھیک کے طور پر دینے کو تیار ہیں اس طرح سے پنجاب میں جس شریف برادران پر ہاتھ رکھ کر ان کی سیاسی پرورش کی گئی، اقتدار میں آنے کے بعد ان کی گردنوں میں بھی اس طرح کا سریہ آگیا تھا کہ وہ خود اپنے محسنوں کو ہی بھول گئے اور ان کے ہی جانی دشمن بن گئے اور کاروباری فائدے کو دیکھتے ہوئے مذہبی اور ملکی دشمنوں سے باریاں گھانٹھ لی اور سیاست و ملک سب کچھ کو داﺅ پر لگا دیا اور اب خود کو تراشنے اور سنوارنے والوں کے دشمن بن کر ان کو للکار رہے ہیں۔ دشمنوں کی گود میں بیٹھ کر خود اس ملک کے دشمن بن گئے ہیں جو ان کی شناخت ہیں جس پر انہیں مجموعی طور پر چالیس سالوں سے بھی زیادہ عرصہ حکمرانی کرنے کا شرف حاصل رہا ہے یہ دو وہ سیاسی پارٹیاں ہیں جو ہمارے ملک کی پالیسی سازوں کے لئے بہت بڑا المیہ اور ان کے لئے بہت بڑا آئینہ ہیں جس میں وہ اپنے چہروں کو دیکھ کر اس پر پڑے گرد و غبار کو با آسانی صاف کر سکتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ان پالیسی سازوں کے طور طریقوں ان کی روش میں کوئی فرق نہیں پڑا وہ ہر حکومت اور ہر سیاسی پارٹی کو اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ اسی طرح کی ڈیل کررہے ہیں اب اس وقت پاکستان کی عالمی دنیا میں سب سے معروف اور زور دار حکومت یعنی عمران خان کی پارٹی اور ان کی حکومت کو بھی وہ پالیسی ساز کسی نہ کسی طرح سے کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے لئے ان لوگوں نے جہانگیر ترین اور چوہدری برادران کو خاص طور سے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس کی وجہ شوگر مافیا کو دوبارہ سے سر اٹھانے کا موقع مل رہا ہے اور کسانوں کا دیرینہ مسئلہ ملک کا وزیر اعظم عمران خان ان کا ہمنوا اور مددگار ہونے کے باوجود تاحال حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے بلکہ قانون سازی کی راہ میں چوہدری برادران اور جہانگیر ترین رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں اور یہ سب کچھ خود عمران خان کے طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے؟ حکومت کی پس پردہ سرگرم قوتوں کو ماضی کے دونوں ناکام تجربوں سے سبق سیکھنا چاہئے انہیں اپنے ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دینے کے سلسلے کو اب ختم کرنا ہوگا پہلے ملک اور اس کی سلامتی ہے اس کو ہی مشعل راہ بنانا ہو گا جو جس کا کام ہے انہیں ہی اسے کرنے دینا چاہئے جب معاملات ملک کی سلامتی سے متصادم ہونے لگ جائیں تب تو پالیسی سازوں کو ساری کارروائیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں لیکن نارمل حالات میں اس طرح کے ایکسر سائز سے گریز کرنے میں ہی ملک کی سالمیت اس کی فلاح اور ترقی مضمر ہے اس پر ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو غور و خوص کرنے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں