609

ویمنزپلیئرز کا تحفظ؛ ہراساں کیے جانے کیخلاف قانون سازی

اسلام آباد: وزارت بین الصوبائی رابطہ نے خواتین کھلاڑیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے والے واقعات کی روک تھام کیلیے آئین سازی کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع سے معلوم ہواہے کہ وزارت کے ذیلی ادارے پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ساتھ الحاق شدہ قومی اسپورٹس فیڈریشنزکوخصوصی طور پر ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ ملکی خواتین کھلاڑیوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کیلیے پی ایس بی میں ویمن لیگل سینٹر قائم کیا جا رہا ہے جہاں خواتین کھلاڑی اپنی شکایات جمع کرائیں گی اور ان شکایات کی بنیاد پر لیگل سینٹر پی ایس بی کی لیگل برانچ کے وکلا اس واقع یا شکایت کا بغور جائزہ لینے کے بعد متعقلہ عدالت میں ملزم یا جرم کرنے والے فردکے خلاف قانونی کارروائی کی جائیگی۔
قومی فیڈریشنز سے کہا گیا ہے کہ خواتین کھلاڑیوں کے تربیتی شیڈول رہائش اور جن کوچز سے کھلاڑی تربیت حاصل کر رہی ہیں اس کی مکمل تفیصلات مہیاکی جائیں تاکہ ان خواتین کھلاڑیوں کووزارت کی جانب سے مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
وزارت بین الصوبائی رابطہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ خواتین کھلاڑی ہمارے ملک کا قمیتی اثاثہ ہیں اور ہماری خواتین نے پاکستان کی تعمیر وترقی میں اپناکردار احسن طریقے سے ادا کیا ہے۔ آئین سازی کا مقصد خواتین کھلاڑیوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ وزارت اور پاکستان سپورٹس بورڈ میں لیگل ایڈ سینٹر موجود ہیں، اس کو مزید فعال کیا جائے گا۔ خواتین کھلاڑیوں کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے ویمن اینڈ اسپورٹس کمیشن کے نام سے ادارہ قائم کیا ہے جس میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے والے واقعات کے سدباب کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔
قومی سطح کی کھلاڑی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ قومی سطح کے مقابلوں میں نمائندگی کے لیے ہمیں مرد کوچزکی زیرنگرانی تربیت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ ملک میں کوالیفائیڈ ویمن کوچزکی تعدادنہ ہونے کے برابرہے خواتین کھلاڑیوں کواگرکوئی مسئلہ ہوتوکئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، مرد کوچزکی جگہ خواتین کوچز کو بھرتی کیاجائے اورایران اورسعودی عرب کی طرح خواتین کیلیے اسپورٹس کی سہولیات علیحدہ کر دی جائیں، جہاں آزادی سے خواتین کھیلوں کی تربیت حاصل کر سکیں، حکومت کی طرف سے کی جانے والی آئین سازی احسن اقدام ہے، ماضی میں کرکٹ اور ہاکی کی خواتین کھلاڑیوں کو مرد کوچز کی طرف سے ہراساں کیے جانے واقعات ہوچکے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں