اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی پارلیمنٹ با اثر مجرموں کی آخری پناہ گاہ بن گئی ہے تو غلط نہ ہوگا جس کے مظاہر ان دنوں پوری قوم کو بعض نامور سیاستدانوں کے نیب کے ساتھ کھیلے جانے والے آنکھ مچولی کی شکل میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ قوم دیکھ رہی ہے کہ کس طرح سے پارلیمنٹرین ہونے کا فائدہ اٹھایا جارہا ہے، کوئی اسپیکر ہو کر اور کوئی رکن اسمبلی ہو کر پروڈکشن آرڈر کے ذریعے اجلاس میں شرکت کے بہانے حراست اور پوچھ گچھ کے مشکلوں سے چھٹکارہ پا رہا ہے، یہ وہ ٹھاٹ اور مزے ہیں جو ہر مجرم ڈاکو اور قومی لٹیرا اٹھانا چاہتا ہے اور اس کے حصول کے لئے وہ انتخابی دنگل میں قوم سے لوٹا ہوا مال پانی کی رطح سے خرچ کرتا ہے اور اس کے بعد اپنے جائے پناہ میں پہنچ کر خود سرکار کے زیر سایہ پوری قوم کو ٹیکہ لگانے کا سلسلہ شروع کردیتا ہے۔
پچھلے 20 سالوں سے تو قوم کے ساتھ اسی طرح سے ہو رہا ہے اس طرح کے لوگوں کے پارلیمنٹ میں پہنچنے سے ہی اس کی عزت و آبرو بالاخانے سے بھی گر کر رہ گئی ہے۔ اتنے تلخ اور بازاری الفاظ ملک کے سب سے سپریم ادارے کے لئے اس لئے استعمال کررہا ہوں کہ یہ ادارہ قوم میں اپنا اعتماد کھو چکا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پارلیمنٹ کی عزت ملکی عوام کی نظروں میں دو کوڑی کی وہ کر رہ گئی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کا ذمہ دار بھی مافیاز کا پارلیمنٹ پر مسلط ہونا ہے ان ہی مافیاز نے جمہوریت اور جمہوری نظام کو پاکستان میں سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ اب عام لوگوں کے زبانی اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ جمہوریت نے عوام کو سوائے ذلت لاقانونیت اور مہنگائی کے اور کچھ نہیں دیا، لوگ جمہوریت سے اکتا گئے ہیں جس کا اندازہ ملک میں ہونے والے انتخابات میں کاسٹ کئے جانے والے ووٹوں کی تعداد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 22 کروڑ کے پاکستان میں کتنے فیصد پاکستانی ووٹ دینے کو پسند کرتے ہیں۔ لوگ اسے ایک فضول مشق قرار دیتے ہیں انہیں بالکل بھی یقین نہیں ہوتا کہ وہ جس مقصد کے لئے ووٹ دینے میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ مقصد کبھی پورا نہیں ہوتا ان کا استقبال انتخابات سے پہلے بھی خالی نعروں سے کیا جاتا ہے اور انتخابات کے بعد بھی حکمران ہوتے ہوئے ان کی جھولیوں کو خالی کھوکھلے نعروں سے بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لئے لوگ اب جمہوریت اور انتخابات سے بیزار ہو چکے ہیں وہ ایک اس طرح کا نظام مملکت چاہتے ہیں جس کے حکمران بہتر اور اندھے نہ ہو کہ عوام کو اپنے مطالبات منوانے کے لئے جلسہ جلوس یا دوسرے طرح کے احتجاج کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ پاکستانی عوام کو اب جمہوریت کی اس حقیقت کا علم ہو چکا ہے۔ جس جمہوریت سے ملکی عوام کو بجائے ملکی لٹیرے غنڈے اور ڈاکو فیض یاب ہو رہے ہیں، خود قانون کو مطلوب لوگوں کے ہاتھ میں قانون کو موم بنانے کا نسخہ ”قانون سازی“ کی شکل میں آگیا ہے اور اب وہ اس طرح کے قانون سازی پر قادر ہو گئے ہیں جن سے ان کے مفادات کو زک نہ پہنچے، یہ اسی ڈالڈا جمہوریت کا ہی ثمر ہے کہ قائد ایوان اور قائد اپوزیشن دونوں مل کر نیب کے چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔ یہ تو بالکل اسی طرح سے ہوا کہ چوروں اور ڈاکوﺅں کے مشورے پر کسی کو اس علاقے کا ایس ایچ او لگایا جائے جہاں وہ وارداتیں کرتے ہیں تاکہ وہ ان پر ہاتھ ڈالنے کی غلطی نہ کرے اسی طرح سے نگراں حکومتوں کے لئے وزیر اعظم اور وزراءاعلیٰ کا انتخاب بھی اپوزیشن اور حکمراں پارٹی کے مشورے سے کیا جاتا ہے یہ وہ اقدامات ہیں جو انصاف اور خود جمہوری عمل کے منافی ہے ان اقدامات سے اتنخابی عمل کی شفافیت سوالیہ نشان بن جاتی ہے اس وجہ سے تو الیکشن کے وہ نتائج نہیں آتے جس کی عوام توقع کرتے ہیں جس کے بعد معرض وجود میں آنے والی حکومتوں سے حسن کارکردگی کے نام پر عوام کو سوائے بدامنی، لاقانونیت اور مہنگائی کے کچھ نہیں ملتا، اس طرح کی جمہوریت سے فائدہ اس پارلیمنٹ اور اس میں رہنے والوں کو ہی ملتا ہے جو قانون کو مطلوب ہونے کے باوجود خود قانون ان کے آگے لیٹ جاتا ہے۔ اس لئے کہ وہ قانون کو موم بنا کر اس کی ناک کو کسی بھی جانب موڑ سکتے ہیں آج کی سیاسی صورتحال بالکل اس کی عکاسی کررہی ہے۔ قانون کو مطلوب مجرموں سے آدھی سے زائد پارلیمنٹ بھری پڑی ہے۔ جس کی دم پر پاﺅں رکھا جاتا ہے فوراً ”جمہوریت کو خطرہ ہے“ کا بینڈ باجہ بجانا شروع کردیا جاتا ہے اور اس کے بعد سیدھے سادے کریمنل کیسز پر سیاسی انتقام اور سیاسی کیسز کا لیبل لگا کر ملکی عوام کو گمراہ کرکے ہمدردی کی بھیک مانگنے کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔ عوام کو دھوکہ دینے کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے اور جب تک اس طرح کی مافیاز پارلیمنٹ اور اقتدار کو اپنی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتی رہے گی یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا۔ وزیر اعظم عمران خان اور دوسرے ملکی پالیسی سازوں کو چاہئے کہ وہ ملکی سیاست سے اس بیماری کو روکنے کے لئے فوری طور پر اقدامات کریں، وہ انتخابی عمل کو بائیو میٹرک کے نظام کے تحت کروانے کے لئے عملی کارروائی کریں اور مجرموں، ڈاکوﺅں اور غنڈوں پر پارلیمنٹ کے دروازے بند کرنے کے لئے قانون سازی کریں اگر حکومت اس طرح سے کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو ملک پر جس طرح سے 20 سالوں سے قومی خزانہ لوٹنے والے راج کرتے رہے اس طرح سے غنڈے اور ڈاکو بھی عوام پر راج کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پورا ملک لاقانونیت کا قبرستان بن کر رہ جائے۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ مہنگائی کو روکے یا نہ روکے، کم از کم پارلیمنٹ میں ڈاکوﺅں، غنڈوں اور ملک دشمنوں کا راستہ تو روکے۔ خدارا کچھ تو کریں۔
