اسلام آباد (پاکستان ٹائمز) پاکستان جہاں کبھی حقیقی جمہوریت دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ جو بھی جمہوری حکومت قائم ہوئی وہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے ہی اپنی میعاد پوری کئے بناءگھر بھجوادی گئی مگر یوں لگتا ہے کہ پاکستان بند گلی میں آچکا ہے اور حالات روز بروز خرابی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ صدر عارف علوی کے الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد ملک میں نئی صورتحال نے جنم لے لیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن بھی مشکل میں پھنس گیا ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی پنجاب اور کے پی کے کے الیکشن کی بابت سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو الیکشن کرانے میں اپنی موت دکھائی دے رہی ہے کیونکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی شہرت اس مافیا کے لئے موت ہے۔ اس لئے اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ اول تو الیکشن کو التواءمیں ڈالا جائے اور اگر الیکشن کرانا ناگزیر ہو جائے تو عمران خان کو اکثریت لینے سے روکا جائے اور تمام جماعتوں کو ملا کر جھرلو حکومت بنائی جائے۔ اس طرح ماضی کے سیاستدان، جنرلوں، بیوروکریٹس اپنا دفاع کرسکتے ہیں وگرنہ عوام کے سمندر کے آگے ان عناصر کا ٹھہرنا ناممکن ہے۔ جنہوں نے پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس لے لیا ہے اور نو رکنی بنچ تشکیل دے دیا ہے جو فوری کام شروع کردے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے دو ججز کی جانب سے اعجاز الاحسن اور مظاہر نقوی کی جانب سے 16 فروری کو آرٹیکل 184 تھری کے تحت ازخود نوٹس کی درخواست کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ اس بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود شامل نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے بنایا گیا نو رکنی بنچ اپنے قیام کے آغاز سے ہی متنازع نظر آتا ہے اور یہ اسٹیبلشمنٹ کی کوئی نئی چال لگتی ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیاں باالترتیب 14 جنوری اور 18 جنوری کو تحلیل کی گئیں تھیں اور ان دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ صدر عارف علوی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی مشاورت کی دعوت پر حیلہ بہانوں کے بعد 9 اپریل کو انتخابات کا اعلان کردیا ہے لیکن وزیر اعظم شہباز شریف اور موجودہ حکومت کے بیانات نے صدر کی حیثیت کا تقدس پامال کردیا اور یوں کل کیا ہو گا کوئی نہیں جانتا۔
146