۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 333

کاش ایسا ہو

عجب دور آگیا ہے، ہر طرف اندوہناک خبریں، دل کو دہلانے والے واقعات، دلوں کو درد و الم سے بھر جانے والے حادثات ہر طرف حادثات، قتل اور غارت گریاں، لوٹ مار، اغواءبرائے تاوان، کاروکاری کے درناک وقوعہ، بچوں کو ہوس کا نشانہ بنانا غرض کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، کوئی نہ کوئی واقعہ ان کے دل کو اداس نہ کردیتا ہو۔ کہتے ہیں کہ اگر دل گھبرائے تو اللہ سے لو لگاﺅ اور اللہ والوں کی باتیں سنو اس سے روح سرشار ہو جائے گی مگر صورت حال وہاں بھی دگرگوں ہے، ایک عالم دوسرے سے لڑ رہا ہے، ایک فرقہ دوسرے کو گردن زدنی اور واجب القتل قرار دے کر تلوار سونتے کھڑا ہوا ہے ایسے ایسے محیر العقول واقعات بیان کئے جارہے ہیں کہ اس ترقی یافتہ اور علم کی دولت سے مالا مال دور میں اس پر ہنسنے کو دل چاہتا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ان کا پیر ہوا میں پرواز کرتا ہے، کوئی تبا رہا ہے کہ ان کے اعلیٰ حضرت نے خدا سے ملاقات کی ہے، کوئی غیب کی باتیں بتا کر لوگوں کو ہراساں کررہا ہے تو کوئی قبر میں مردے کی منکر نکیر سے گفتگو کی کمنٹری سنا رہا ہے، ایک طرف ان کے پیر مردوں کو زندہ کررہے ہیں تو دوسری طرف زندوں کو مردہ بنانے کی تلقین کررہے ہیں۔ ذرا سوشل میڈیا پر چلے جائیے، فتوں کے جمعہ بازار لگے ہوئے ہیں، عورتیں نکاحوں سے نکالی جارہی ہیں، چار چار شادیوں کو عین جنت کی کنجی قرار دیا جارہا ہے۔ ستر ستر فٹ کی ستر ستر حوروں کی شہادت دی جارہی ہے اور آہوچشم مسلمانوں کی تصویر کشی ہو رہی ہے اس ماحول میں آدمی کا رہا سہا ایمان بھی ڈانواڈول ہو رہا ہے۔
ان ہیبت ناک اور دہشت ناک خبروں کے درمیان ایک ایسی خبر آئی ہے کہ کسی صحرا میں پیاسے کو پانی کی لہریں مارتی جھیل مل جائے، جیسے کہ کسی تڑپتے ہوئے دل کو محبوب کا دیدار ہو جائے، جیسے درد سے تڑپتے ہوئے مریض کو بے وجہ قرار آ جائے۔ مدت کے بعد خوشخبری کی شکل میں جو نوید ملی اس سے دل باغ باغ ہو گیا اور مایوسیوں کے گھپ اندھیرے میں روشنی کی کرنیں جگمگانے لگیں۔ ایسے جیسے کسی طویل تاریک سرنگ کے خاتمے پر اچانک نور سامنے آ جائے۔ ہم جو مایوسیوں کے اتاہ سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے پھر سے سطح آب پر نمودار ہو گئے کہ دل کی کلی کھل گئی جیسے کہ گمشدہ جنت ہاتھ آگئی۔ ہم جو کہ بالکل ناکام و نامراد سمجھنے لگے تھے خود کو اب کامیاب و کامران محسوس کرنے لگے۔ ہم جو دین کے بارے میں اس کے نام نہاد ٹھیکیداروں کی باتوں سے اپنی آخرت سے مایوس ہو کر خود کو جہنم کا ایندھن تصور کررہے تھے اور فرشتوں کے آگ سے پہلے گرزوں کو اپنے سروں پر بچتا ہوا محسوس کرنے لگے تھے اب ہمیں جنت کی مہک دار ہواﺅں کے جھونکے مست کررہے تھے اور ان پیاری پیاری حوروں کی تصویریں ذہن میں بننے لگیں تھیں جن کی تصوری منبر پر مولوی صاحب کھینچتے ہیں اور بشارت دیتے ہیں کہ ان کے فرقے والوں کو ایک ایک عمل پر لاتعداد نصیب ہوں گیں۔ جو سنبھالے نہیں سنبھلیں گی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس آدمی کا دماغ مخیل ہو گیا ہے یا کہ گرمی چڑھ گئی ہے۔ اول فول بک رہا ہے۔
جناب ایسی کوئی بات نہیں ہے یہ ٹھنڈی ہوا ہمارے پیارے ملک اور عین میں اسلامی معاشرے کے مقام پارا چنار سے آئی ہے جس نے ہمارے دن پھیر دیئے ہیں، جگر تھام لیجئے اور خوشی سے جھوم جائیے، اس مقام پر دو مختلف فرقوں کے مولیوں نے جو مناظرے کے ماہر کہے جاتے ہیں، اعلان کیا ہے کہ دونوں حضرات جو یقیناً پہنچے ہوئے ہوں گے، عاقل بالغ ہوں گے، اور اپنے فیصلے قرآن و سنت کے تحت کرتے ہوں گے، نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے فرقے کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے آگ کے الاﺅں میں بیٹھیں گے اور جو حق پر ہو گا اسے آگ چھو بھی نہیں سکے گی اور ناحق پر ہو گا اسے آگ جلا کر خاکستر کردے گی۔ اس سے بڑھ کر حقانیت کا اور کیا دعویٰ ہو سکت اہے اگر دونوں میں سے ناکام ہو کر بھسم ہو گیا تو دوسرے کی سچائی سب پر ظاہر ہو جائے گی اور پھر ایک فرقہ باقی رہ جائے گا اس طرح فرقہ پرستی ختم اور اگر خدانخواستہ میرے منہ میں خاک دونوں ہی راہی ملک عدم ہو گئے تو دنیا سے دو فتنے ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد اب ہر فرقے کے لوگوں کو اپنے اپنے مولویوں سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ حقانیت ثابت کرکے اس عمل سے گزریں اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ 24 ہزار مدرسوں میں جو سعودیوں نے اپنے مسلک کے لوگ بنانے کے لئے قائم کئے ہیں اور اس کے دیگر فرقوں کے مدرسوں میں بھی یکدم مندی کا رجحان پیدا ہو جائے گا کیوں کہ مظہر فطرت ضرور ہے مگر صرف فرعون کی آگ کو اپنے نبی کے لئے گلزار بنائی ہے۔ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے لئے نہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ان نام نہاد مذہبی اداروں میں جہاں اپنے علاوہ دیگر فرقوں کے افراد کو کافر اور گردن زدنی قرار دیتے ہیں، دستار فضیلت دینے سے قبل ایک عملی امتحان یہ بھی رکھا جائے کہ وہ آگ میں بیٹھ کر عملی امتحان دے جو اس میں بچ جائے وہ سب سے سر آنکھوں پر ورنہ قانون قدرت کے تحت دنیا سے تفرقوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ویسے کہتے ہیں کہ جب فرشتے ایک شخص کو جسے جہنم رسید کیا گیا تھا جہنم کے سامنے لے جایا گیا تو اس نے فرشتوں سے کہا کہ یہ کیسی دوزخ ہے یہاں تو آگ ہی نہیں ہے؟ فرشتوں نے ہکا کہ دوزخ میں آگ آدمی اپنی آگ خود لے کر دنیا سے آتا ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ زمانہ قدیم میں یورپ میں جب شعبہ باز جادوگر بن کر لوگوں کو الو بناتے تھے تو انہیں سزا کے طور پر جلا دیا جاتا تھا اس طرح جادوگروں کا قلع قمع ہو جاتا، اب پھر اسی دور کو لا کر لوگوں کو گمراہ کرنے والے شعبدہ بازوں سے نجات دلائی جائے جس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں