عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 399

کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا۔۔۔

آج کا کالم میں لکھنا تو کسی اور موضوع پر چاہ رہا تھا مگر اپنے جارحانہ انداز تحریر کے وجہ سے میں خود ہی اس موضوع سے کنارا کر گیا اس لئے کہ وہ خود میرے لئے بھی پریشانی کا باعث بن سکتا تھا۔ پڑھنے والے جان گئے ہوں گے کہ میں کیا بات کررہا ہوں؟ فی الحال تو وہ تحریک انصاف کی حکومت کے لئے مسئلہ بن کر ملکی اپوزیشن پارٹیوں کا کام آسان بنا رہے ہیں اپنے عجلت میں کئے جانے والے اقدامات سے اپوزیشن کے مردے گھوڑے میں جان ڈال رہے ہیں۔ میرے ذاتی خیال میں وہ ایسا سب کچھ خودنمائی کے مرضی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کررہے ہیں اس سے زیادہ ان کا اور کوئی ایجنڈا نہیں ہو سکتا۔ ملکی اپوزیشن کے ساتھ حکومت سے ناراض میڈیا کے ہاتھ بھی گوشت سے بھری ہڈی لگ گئی ہے۔ جسے وہ بڑے مزے سے نمک مرچ چھڑک کر کھا بھی رہے ہیں اورمخالفین کو سلگا بھی رہے ہیں اس موجودہ صورتحال کو دیکھ کر مجھے فیس بک کی ایک پوسٹ شدت سے یاد آگئی جس پر لکھا تھا ”ہم اپنی غلطیوں کے وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کے لئے جج بن جاتے ہیں“۔ یہ جملہ اس موجودہ صورت حال کی کسی حد تک عکاسی کررہا ہے اس وقت زمینی حقائق اور آئین میں درج آرٹیکل اور اس سے حاصل اختیارات مدمقابل آکر ٹکراﺅ کی پوزیشن اختیار کر گئے ہیں۔ زمینی حقائق وہ ہوتے ہیں جس سے دور حاضر میں ہر کوئی متاثر ہو رہا ہوتا ہے اور اس کے مطابق ہی انہیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔
زمینی حقائق کو نظرانداز کرکے برسوں قبل لکھی گئی عبارت پر چلنے والے ہی ”لکیر کے فقیر“ کہلاتے ہیں نیز اس فارمولے پر آسمانی کتابیں پوری نہیں اترتی اس لئے اس فارمولے کا اطلاق ان پر نہیں کیا جا سکتا اس لئے لکیر کے فقیر ہی موجودہ صورتحال میں ریاست کے لئے ایک سیکورٹی رسک بنتے جارہے ہیں۔ وہی ملک میں بحران پیدا کئے جانے کے ذمہ دار بھی ہو رہے ہیں اس ”تانکہ جھانکی“ والی صورتحال نے ملکی اداروں میں کشیدگی پیدا کر دی ہے، ہر کوئی دوسرے کو شک بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے کسی کو بھی کسی کے کام سے اطمینان نہیں آرہا ہے۔ قصائی ڈاکٹر سے کہہ رہا ہے کہ اس نے آپریشن ٹھیک طرح سے نہیں کیا ہے اور پروفیسر حجام سے کہہ رہا ہے اسے بال کاٹنا نہیں آتے یعنی ہر کوئی اپنے کام کو چھوڑ کر دوسروں کےکاموں میں کیڑے نکال کر اسے اچھائی کا درس دے کر خود کو ارسطو، سقراط اور افلاطون ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے اور اس کے نتیجے میں ان میں سے کسی کا بھی نہیں ملک اور اس میں رہنے والے 20 کروڑ عوام کا نقصان ہو رہا ہے جس کی پرواہ عوام کے ووٹوں سے ایوان میں پہنچنے والوں کے علاوہ اور کسی کو نہیں ہو سکتی اس لئے کہ باقی تو سارے کے سارے سلیکٹڈ ہوتے ہیں، الیکٹڈ نہیں۔۔۔ اس لئے عوام کے ووٹوں سے بننے والی حکومت کو ہی اس طرح کے خود نمائی کے چنگاری سے شعلہ اور اس کے بعد بننے والی آگ سے ملک کو بچانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ جس موجودہ صورتحال سے تحریک انصاف کی یہ حکومت ان دنوں دوچار ہے اس صورتحال سے تقریباً ساری حکومتیں کسی نہ کسی طرح سے دوچار ہوتی رہی ہیں اس لئے اس کا حل جمہوریت اور قانون کے دائرے میں رہ کر نکالنا ہی پڑے گا ورنہ یہ کٹہرا اسی طرح سے بیدار ہو کر حکومتوں کے لئے مسائل پیدا کرتا رہے گا۔ میں یہ تحریر کسی کی تضحیک کے لئے نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ میں تو آئینہ کا کردار ادا کرتے ہوئے انہیں ان کی صورت دکھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ وہ آئین اور قانون کے نام پر کیا کرنے جارہے ہیں۔۔۔ ان کے اس طرح کے اقدامات سے ملک کو فائدہ پہنچ رہا ہے؟ یا نقصان؟ یا وہ یہ سب کچھ صرف واہ واہ سننے کے لئے کررہے ہیں۔ اس واہ واہ اور آہ آہ کے کھیل میں ریاست دبلی پتلی ہوتی جارہی ہے اور ان کے سینے چوڑے ہوتے جارہے ہیں۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے ملک کے تمام اداروں سے زیادہ باوقار اور با اختیار۔ وہ ایک الگ بات ہے کہ اس کے مکینوں کی اکثریت اس میں رہنے کی اہل نہیں۔ مگر یہ بات تو روز روشن کی طرح سے عیاں ہے کہ پارلیمنٹ ایک با اختیار ادارہ ہے وہاں سے قانون بنتے ہیں جن پر عمل درآمد دوسرے تمام اداروں پر لازم ہے یہ امتیازی اختیار ہی پارلیمنٹ کو دوسرے اداروں سے ممتاز بناتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے باقی تمام اداروں پر سبقت حاصل ہے ان کے بنائے گئے کسی بھی قانون کو کسی بھی فورم پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ سوائے ان قوانین کے جو ریاست کے اساس سے متصادم ہو یہ حکومت کا صوابدید ہے کہ وہ جسے چاہے جس کام کے لئے منتخب کرے اس پر کسی بھی دوسرے ادارے کا اعتراض خود آئین سے انحراف کا باعث سمجھا جائے گا فی الحال تو جو موجودہ صورتحال یا کشیدگی پیدا ہو گئی ہے وہ کسی بھی لحاظ سے ملک کے لئے بہتر نہیں ہے خاص طور سے کرونا کے اس وبا کے موقع پر جب پورا ملک لاک ڈآﺅن ہے ملک اس طرح کے کسی بھی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے میری جانب سے دونوں فریقوں سے ہاتھ جوڑتے ہوئے یہ گزارش ہے کہ خدا کے واسطے اس ملک پر رحم کریں اور اپنی اپنی غلط فہمیوں کو دور کریں اور اس سلسلے کو فوری طور پر بند کردیں جس سے انارکی کی سی صورتحال پیدا ہوتی جارہی ہے جب کہ سیاستدانوں کو بھی چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ کے بالادستی کے لئے موجودہ حکومت کی پشت پر کھڑے ہو جائیں یہ وقت آپس کے اختلافات کو جاری رکھنے کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے وقار کا ہے ملک اسی وقت ترقی کی شارع پر دوڑ سکے گا جب تمام ادارے اپنے اپنے حد میں رہ کر کام کریں گے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے کسی کو بھی فائدہ نہیں بلکہ اس کا نقصان ملک کو ہوگا اس لئے اس ملک پر اور اس میں رہنے والے عوام پر رحم کھاتے ہوئے اس سلسلے کو فوری طور پر ختم کروا دیں جو بحرانوں کو پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں اسی میں پاکستان اور اس کے اداروں کی سلامتی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں