بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 168

کیا یہی ہماری میراث ہے؟

مجھے یاد ہے کہ ایک زمانہ میں جشن آزادی منانے کا طریقہ کار بالکل مختلف ہوا کرتا تھا۔ ڈھیروں چینلز تو نہ تھے البتہ ایک ریڈیو پاکستان اور ایک پی ٹی وی ہوتا تھا۔ جس پر جشن آزادی کے نغمہ چلا کرتے تھے۔ عالمگیر، محمد علی شہکی، افراہیم، ملکہ ترنم نورجہاں، مہناز، نیرہ نور جیسی مایہ ناز گلوکار قومی ترانہ اور قومی نغمہ گایا کرتے تھے۔ اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر مذاکرے ہوتے تھے۔ قائد اعظم کی شخصیت اور قائدین پاکستان کے بارے میں تقاریر ہوتی تھیں۔ تقریری مقابلوں میں طالبعلموں کو انعامات سے نوازا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ زمانہ تھا کہ یہ تحائف اور انعامات مہنگے تو نہ ہوتے تھے مگر انہیں حاصل کرنے کا ایک عزم ہوتا تھا اور حاصل کرنے کے بعد جو نشہ ہوتا تھا جو سکون ملتا تھا اور جو اعتماد حاصل ہوتا تھا وہی اعتماد ہے جو آج تک ہمارے وجود کا حصہ بن کر ہماری اصلاح کرتا رہتا ہے اور ہمیں روز ہماری ذمہ داریوں، غلطیوں سے آگاہی دیتا رہتا ہے۔ اب پیچھے مڑ کر دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور آج کہاں آگئے۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم شاید ہم کسی میراثی قبیلہ سے تھے کہ اب تو نہ کوئی تعلیمی سرگرمیاں ہیں، نہ اعلیٰ سماجی اقدار، اب تو چہار جانب بھانڈ ہیں جو اپنی آواز کا جدو جگا رہے ہیں، جشن آزادی کے موقع پر بھی اب تو لگتا ہے کہ انہی کی چاندی ہوتی ہے اور لوگ جوق در جوق ملی نغموں کے بجائے فضول قسم کے فلمی گانوں پر ٹھمکے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ میں بہت سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ تنقید کرنے کے علاوہ ہم نے اور کیا کیا؟
اگر دوسروں نے کوئی غلط بنیاد ڈالی تو کیا ہم نے کمیونٹی کی صحیح سمت میں نمائندگی کی، میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا یہ میری ذمہ داری نہیں تھی کہ کچھ کرتا نہ کرتا کم از کم میں کسی پرانی روایات کو زندہ رکھنے کے لئے آگے آتا اور یہاں موجود بچوں کو جشن آزادی کی اصل روح سے متعارف کرواتا۔ پاکستان کی تاریخ پہ پروگرام کرتا، بچوں کے ذریعہ تک مثبت پروگراموں کے ذریعہ پیغام پہنچاتا۔ لیکن میں نے بھی یہ کچھ نہیں کیا۔ صرف کڑھتا رہا، تنقید کرتا رہا اور آج بھی وہی کام کررہا ہوں۔
ہمیں نارتھ امریکہ میں رہتے ہوئے 30 سال ہو گئے، ہم نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ کس طرح اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں، کیسے یہاں کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں، اب ہم تو اب بھی یہاں کے شہری ہونے کے ناطے بہت سے معاملات میں یہاں کے مقامی لوگوں کے شانہ بشانہ ہوتے ہیں بلکہ کچھ معاملات میں تو ہم نے انہیں بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ شاید اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور پاکستان کے بارے میں مثبت سوچ اپنی نوجوان نسل میں پیدا کریں۔ پاکستان میں رہنے والے بچوں تک اپنا پیغام پہنچائیں وہاں بھی تربیتی اور تعلیمی پروگرام ترتیب دیں جو پاکستان کی صحیح تاریخ انہیں پڑھائیں اور انہیں جھوٹی اور بے بنیاد خبریں سنانے کے بجائے صحیح سمت میں ان کی رہنمائی کریں تو آئندہ کے 5 سالوں میں ملک میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔
ہمیں پاکستان میں لوگوں کی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ انہیں سپورٹ کرنا ہوگا۔ وہاں عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے اور ہر شخص پاکستان چھوڑنے کی فکر میں ہے، یہ ایک خطرناک سوچ ہے، اللہ ہمارے ملک کی نئی نسل کی رہنمائی اور مدد کرے، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں