امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 291

کینیڈا کی مردم شماری، ایک بھاشا اور لِپّیوں کا قضیہ

آج کل کینیڈا کی مردم شماری جاری ہے جو ہر پانچ سال کے بعد باقاعدگی کے ساتھ ہوتی ہے ، اور اس میں حاصل کیئے گئے اعداد و شمار اور تجزیے جلد ہی دیانت داری کے ساتھ عوام کو پیش کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کی مدد سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی منصوبہ بندی کرتی ہیں تاکہ شہر یوں کو ہر و ہ سہولت مہیا کی جاسکے جو ان کا استحقاق ہے۔ ان اعداد و شمار کو کاروباری ادارے، ثقافتی ادارے، اور شہری معاملات کے عمل پرست بھی اپنے معاملات کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔اس مردم شماری میں گھر میں بولی جانے والی زبان کے بارے میں بھی سوال ہوتے ہیں۔ تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ کینیڈا کے شہری انگریزی، یا فرانسیسی کے علاوہ گھروں میں کونسی زبان بولتے ہیں۔ ان اعداد و شمار پر یا طریقِ کار پر خال خال ہی سوال اٹھتے ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں کچھ پاکستانیوں، بالخصوص پنجابی نڑاد پاکستانیوں نے یہ مسئلہ اٹھایا کہ اگر ہم گھر میں بولی والی زبان کےخانے میں ، ’پنجابی‘ درج کریں گے تو ہمارا شمار بھارت کے پنجابیوں میں کیا جائے گا، اور یوں ہمارا تشخص خراب ہوگا ، ہماری گنتی کم ہوجائے گی، اور کینیڈا میں مقیم بھارتی پنجابیوں کو شاید زیادہ سہولتیں مل جایئں گی۔ امسال ان حضرات نے سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم چلائی کہ پاکستانیوں کو چاہیئے کہ وہ گھر میں بولی والی زبان کے خانہ میں اردو درج کریں۔ اس طرح شاید ان کے پاکستانی ہونے کا بول بالا ہوگا۔ وہ یہ بھول گئے کہ بھارت کے اردو بولنے والی بھی تو گھر میں بولی جانے والی زبان کے خانے میں اردو لکھواتے ہیں۔ کینیڈ ا میں مقیم تارکِ وطن قومیتوں کی تعداد کو سمجھنے کے لیئے یہاں کی مردم شماری کا ایک تفصیلی طریقہ ہے، جس پر آگے بات ہوگی۔
اس قضیہ نے ایک نیا رخ یوں لیا کہ کینیڈا کے پاکستانی ہائی کمیشن نے یہاں کی وزارتِ خارجہ کو ایک مراسلہ بھیج دیا۔ جس میں سفارش کی گئی کہ کینیڈا ، اپنی مردم شماری کے سو سال سے بھی زیادہ عرصہ سے جاری طریقہ میں تبدیلی کرے۔ اردو کو پاکستان کی قومی زبان کی بنیاد پر انفرادی قومی زبانوں میں شامل کرے، اور پنجابی کی ضمن میں شاہ مکھی اور گ±رمکھی کا فرق ظاہر کرنے کا انتظام کرے۔ یہ خط ، ہائی کمیشن کے دفتر سے پاکستانی میڈیا کو بھیجا گیا تھا۔ ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیئے۔ایک زبان یعنی پنجابی بھاشا کو دو لپیوں یعنی گر مکھی اور شاہ مکھی میں تقسیم کرنے کی دلیل پر چپ ہی رہنا بہتر ہے۔ پھر بھی آگے کی کچھ سطریں شاید اس پر تبصرہ ہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ہر مردم شماری میں اردو زبان الگ سے گنی جاتی ہے۔ او ر مردم شماری کے بارے میں اردو رسم الخط میں ایک تفصیلی کتابچہ بھی جاری کیا گیا ہے۔
اس خط پر ہمیں اردو کے ایک ممتاز دانشور ڈاکٹرگیان چند جین یاد آگئے، جن کی کتاب’ ایک بھاشا، دولکھاوٹ ، دو ادب‘ کے شائع ہونے کے بعد ایک طوفان اٹھا تھا۔ ایک بحث چھڑی تھی جس میں انتظار حسین، اور شمس الرحمان فاروقی جیسے بڑے نام آگ بگولہ تھے۔ اتنے کہ بحث میں بات شخصیات تک جاپہنچی تھی۔ گیان چند کی دلیل یہ تھی کہ اردو اور ہندی دراصل ایک ہی بھاشا ہیں، گو ان کی لکھاوٹیں یا لپیاں الگ ہیں۔ خود گیان چند جین نے یہ لکھا کہ ، ”میرا ادّعا یہ ہے کہ، اگرچہ اردو اور ہندی دو آزاد ادب ہیں، لیکن اردو اور ہندی، دو مختلف زبانیں نہیں ہیں۔ مجھے تسلیم ہے کہ اردو اور ہندی دو مختلف ادب ہیں، لیکن دو مختلف زبانیں نہیں ہیں۔ دخیل الفاظ سے زبان کا تعین نہیں ہوتا۔ رسم الخط کا فرق بھی اس طرح ایک زبان کے دو حصے نہیں کر سکتا۔ “
اس کتاب کے پیش لفظ میں ممتاز نقاد اور جواہر لال یونیورسٹی کے پروفیسر محمد حسن نے لکھا تھا کہ، ”ایک بات واضح ہے کہ زبان کا لازمی رشتہ رسم الخط سے نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں یہی خوش فہمی عام ہے۔ اور اس میں مزید اضافہ یہ کر لیا گیا ہے کہ، زبانوں کو مذہب یا/اور علاقوں سے جوڑ کر اس میں مزید تعصب اور تنگ نظری کو داخل کر دیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ زبانوں کا تعلق لازمی طور پر بولے جانے سے ہے۔ ہم نے زبانوں کا تعلق بولنے سے زیادہ لکھنے سے منسلک کر دیا ہے۔ اور وہ بھی ایسے ملک میں جہاں شرحِ خواندگی بہت کم ہے۔ “
پاکستان کے ہائی کمیشن کے اس خط کے بارے میں کینیڈا کے اخبار پاکستان ٹائمز میں یہاں کے ایک ممتاز پاکستانی نڑاد دانشور اور پروفیسرمرتضیٰ حیدر کا ایک تفصیلی بیان شائع ہواتھا۔ جس میں انہوں نے اس خط کی دانشمندی پر سوال اٹھایا تھا۔ ڈاکٹرمرتضی حیدر کینیڈا میں بسنے سے پہلے پاکستان میں صحافت سے منسلک تھے، اور اس ضمن میں وہ فرنٹیئر پوسٹ، اور دی نیوز کے کارکن صحافی اور اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی تھے۔کینیڈا آکر وہ ماہرِ اعداد و شمار بنے۔ آج کل وہ کینیڈا کی دو اہم جامعات، رائرسن، اور مک گِل میں پروفیسر ہیں۔وہ سالہا سال سے کینیڈا کی مردم شماری پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے جیونیوز کینیڈا کے ایک پروگرام کے میزبان، اویس اقبال سے مردم شماری اور ہائی کمیشن کے بیان کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ جس کو آپ اسے لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ، کینیڈا کی مردم شماری اس بات کی طالب ہے کہ ہر شہر ی پوری دیانت داری سے معلومات فراہم کرے۔ زبان کے بارے میں وہی اندراج کرائے جو سچ ہے۔ یعنی کہ اگر آپ گھر میں ، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو ، اردو ، یا پاکستان کی کوئی بھی خوبصورت زبان بولتے ہیں تو دیانت داری سے اس کا اندراج کریں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مردم شماری میں دو فارم استعمال ہوتے ہیں۔ ایک مختصر اور ایک طویل۔ طویل فام میں شہری سے اس کے سابقہ وطن، زبان ، اور مذہب وغیرہ کے بارے میں تفصییہ سوال ہوتے ہیں۔ اور یہ کہ زبانوں کی بنیا د پر آپ کی قومیت کی تعداد کا اندازہ نہیں کیا جاتا۔ زبان کے رسم الخط کی بنیاد پر تو بالکل بھی نہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بدقسمتی سے پاکستانی مردم شماری کے طریقہ سے یوں بھی واقف نہیں ہیں کہ ان کے اپنے وطن میں تو سالہا سال سے مردم شماری ہوئی بھی نہیں۔ جب ہوئی بھی تو سندھ اور وفاق میں قضیہ شروع ہو گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں سالہا سال سے ہر اس شہری ادارے پر سے اعتماد ختم کیا گیا ہے جس کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نہایت ماہر اور تعلیم یافتہ افراد پر مبنی ہے لیکن گزشتہ دنوں ان پر بھی ریاست کے بعض لوگوں کی طرف سے سخت دباﺅ ڈالا گیا اور ان کی کارگردگی پر شبہات اٹھائے گئے۔ ان کے گمان میں مردم شماری کے بارے میں ہائی کمیشن کا خط شاید ایسے ہی کسی دباﺅ کے تحت لکھا گیا ہو۔
انہوں نے یہ بھی کہا گو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پنجابی گو شہریوں کی اکثریت ہے لیکن وہاں اس زبان کے فروغ اور خاص طورپر اس کے رسم الخط کے بارے میں کوئی بڑا کام نہیں ہوا۔ شہریوں کو تو گر مکھی اور شاہ مکھی کا فرق تک معلوم نہیں ہے۔ پنجابی زبان کے اپنے اخبار اور رسالے نہیں ہیں۔ نہ ہی اس کا رسم الخط سرکاری معاملات میں مستعمل ہے۔ ایسے میں کینیڈا کی مردم شماری میں گر مکھی اور شاہ مکھی کی بحث اٹھانا، نہ صرف لا یعنی ہے بلکہ صریح غیر دانشمندانہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں