ہرسال 23 مارچ کو پوری پاکستانی قوم یوم پاکستان مناتی ہے کیونکہ 1940 ءمیں 23 مارچ کے دن مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کے ذریعے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا، اور سات سال کے قلیل عرصے میں مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ 23 مارچ یوم تجدید عہد کاتقاضا ہے کہ ہم اپنے ذہن کے گوشہءمیں سوئے ہوئے افکار کو زندہ کرتے ہوئے ، قیام پاکستان کے لئے چلائی گئی تحاریک کو اپنی بصیرت سے دیکھتے ہوئے، قیام پاکستان کے لئے دی گئی قربانیوں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے غور کریں کہ قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا ۔ بھرپور جدوجہد و عظیم قربانیوں کے بعد پاکستان کا معرض وجود میں آنا قدرت الٰہی کا قیمتی انعام ہے۔ مگر صد افسوس کہ آج ہم نے قیام پاکستان کے عظیم مقصد کو فراموش کردیا۔ آج ہمیں غور کرنا چاہیے کہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کس ریاست کا خواب دیکھا تھا؟۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کس لئے ایک علیحدہ ریاست کی جدو جہد کی تھی؟۔ پھر یہ حقیقت آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ مختلف صوبوں، علاقوں، قوموں اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو جس قوت نے ایک متحدہ قوم بنا دیا وہ قوت اسلامی نظریہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہم اپنی کوتاہ اندیشیوں اور لیڈروں کی خود غرضیوں اور سازشوں کے باعث مشرقی اور مغربی پاکستان کو متحد نہ رکھ سکے لیکن ایک ہزار میل سے بھی زیادہ فاصلے پر موجود مغربی پاکستان اور بنگال کا 27 رمضان المبارک 14اگست 1947ءکو ایک متحدہ پاکستان کے طور پر معرض وجود میں آنا کیا کلمہ طیبہ کی برکت اور طاقت نہیں تھی؟۔ اور کلمہ طیبہ ہی ہمارا نظریہ پاکستان ہے۔ نظریہ پاکستان کے دو الفاظ کو اگر ایک لفظ میں ادا کرنا ہو تو وہ اسلام ہے۔گاندھی اور نہرو کی مطالبہ پاکستان کے خلاف دلیل یہ تھی کہ تبدیلی مذہب سے قوم تبدیل نہیں ہوتی نیشنلسٹ علماءبھی یہی نقطہ نظر رکھتے تھے کہ قوم وطن سے بنتی ہے مذہب سے نہیں لیکن علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح دونوں کا پرزور موقف یہ تھا کہ مسلمان اپنے الگ مذہب کی بنیاد پر ایک جداگانہ قوم ہیں۔ گویا جتنی چاہے بحث اور تجزیہ کر لیں تحریک پاکستان کی بنیاد اسلام ہے۔ اسلام ہی نے ہمیں قیام پاکستان کے مخالفین کے مقابلہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا تھا۔
قائد اعظم کے مشہور سلوگن ایمان، اتحاد اور تنظیم پر ہی غور کر لیں کہ ایمان کی طاقت نے ہمیں متحد کیا۔ ہم ایک قوم بنے اور ہم اپنے لئے ایک الگ علاقہ، مملکت اور وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ آپ 8مارچ 1944ءکی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں قائد اعظم کی تقریر کا یہ مختصر ترین اقتباس دیکھیں۔ ”پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے۔ وطن اور نسل نہیں“۔ قیام پاکستان کی نظریاتی بنیاد کے جو دشمن یہ اظہار خیال کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ قرار داد لاہور میں اسلام کا حوالہ موجود نہیں اور نہ ہی قیام پاکستان کے بعد نفاذ اسلام کا کوئی عزم و ارادہ ظاہر کیا گیا تھا۔ کیا قائد اعظم نے کلمہ توحید کے حوالہ صرف ہندوستان کا جغرافیہ تقسیم کرنے کے لئے دیا تھا۔ قائد اعظم نے اسلام کو پاکستان کا جذبہ محرکہ اور وجہ جواز بھی قرار دیا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک ایسا ملک جس کا حقیقت کی دنیا میں تو کیا خواب میں بھی وجود نہ تھا۔ صرف اسلام نے دنیا کے نقشے کو تبدیل کر کے اس نئے ملک کی بنیاد رکھ دی اور ساتھ ہی دنیا میں ایک نئی مثال قائم ہو گئی کیوں کہ صرف مذہب کے نام پر ہندوستان تقسیم ہوا تھا۔ سیکولر ازم کا ڈھول بجانے والے اگر اس دور کے ہندو اخبارات میں ہندو سیاست دانوں کے بیانات پڑھ لیں تو انہیں علم ہو جائے گا کہ ہندو طبقہ پاکستان کی مخالفت ہی اس وجہ سے کر رہا تھا کہ وہ پاکستان کے مطالبہ کو اسلام ازم کی ایک کڑی سمجھتے تھے ۔ قیام پاکستان کا مقصد تھا کہ یہاں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہونے والی اللہ کی آخری اور جامع کتاب قرآن کرےم کے اصولوں کے مطابق نظام حکومت قائم کیا جائے گا ۔ قائد اعظم کے درج ذیل فرمان کو ملاحظہ فرمائیے۔ ”اس حقیقت سے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا بنیادی اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو معاشرت، مذہب، تجارت، عدالت، فوجی امور، دیوانی، فوجداری اور تعزیرات کے ضوابط کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے“۔
قائد اعظم نے مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم بھی یاد کروایا کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ قرآن حکیم کا ایک نسخہ اپنے پاس رکھے تاکہ وہ اس سے اپنے لئے رہنمائی حاصل کر سکے۔ قائد اعظم نے بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ”پاکستان سے صرف حریت اور آزادی مراد نہیں اس سے فی الحقیقت مسلم آئیڈیاجی مراد ہے جس کا تحفظ ضروری ہے“۔ غور کریں اگر قرآنی تعلیمات اور قرآنی احکامات کو نافذ کرنے کا مطلب سیکولر ازم نہیں ہے تو پھر قائد اعظم کی سوچ کو سیکولر کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اللہ ربّ العزت کے خاص فضل و کرم سے اےک آزاد خود مختار، اسلامی فلاحی رےاست، پاکستان کامعرض وجود مےں آنا بلاشبہ عوام پاکستان کے لیے قدرت کا ایک بہت بڑا انعام ہے، آج تجدید عہد کی ضرورت ہے کہ جس نظریہ کی برکت سے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا اسی نظرئیے یعنی قرآن کرےم کی اصولی ہدایات پر عمل کر کے اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرتے ہوئے ہم پاکستان کو ایک پرامن اور بہترین ملک بنائیں گے۔ ہم اہل پاکستان کی زمہ داری ہے کہ با ہمی تنازعات اور فرقہ بندیاں، صوبائی و علاقائی تعصب کو بھلا کر خوشحال و مستحکم اسلامی فلاحی ریاست پاکستان کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔
318