آج کے دور میں جب کہ ہر طرف سے وہ خبریں آرہی ہیں جنہیں پڑھ کر دل بیٹھ جاتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسے کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں جن کی ڈوریاں ان طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں کہ جو ان کا مزاج آئے وہ کر گزریں۔ وہ ملک جو اپنی دانست میں ساری کائنات کے والی وارث تھے اور کوئی پتہ بھی ان کی مرضی کے بغیر ہل نہیں سکتا تھا مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ہر فرعون کے لئے ایک موسیٰ ہوتا ہے اور جب انسان کا ظرف اس کی حد سے چھلک جاتا ہے تو قانون قدرت عمل میں آ جاتا ہے۔ مدت کے بعد اس قانون کا مشاہدہ ہمیں اپنی زندگی میں نصیب ہو گیا۔ وہ ملک جو اپنے آگے ہر ایک کو انتہائی حقیر گردانتا تھا اور نخوت و غرور کا پتلا بنا ہوا تھا اور اپنی دولت کے گھمنڈ میں قارون، شداد اور فرعون بن چکا تھا اور ایک ایسے حکمران کے ہاتھوں میں تھا کہ جس کے ارادے اور عمل دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ایک ایسے ملک کا حکمران یہ بھی ہو سکتا ہے۔ جس نے پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا اور ہر شخص راہنمائی کے لئے اس کی طرف دیکھتا تھا۔ وہ طاقتور ملک جو جب چاہے اور جسے چاہے عرش سے فرش پر لا کر ٹیک دے جس ملک کو چاہے راندہ درگاہ بنا دے جس فرد کو چاہے نشان عبرت بنا دے، ملکوں کے حکمرانوں جب مزاج چاہے تبدیل کر دے جو ملک کسی معاملے میں اپنے مفاد کے لئے کام کرے وہاں سازش سے جال بن کر اسے تباہ و برباد کر دے جس ملک کو چاہے اپنی جاگیر سمجھ کر اسے اپنے قبضے میں لے لے اور جسے چاہے آگ و خون میں لت پت کردے۔ جراثیمی اور حیاتیاتی الزامات لگا کر اس پر فوج کشی کر دے اور وہاں کے حکمران کو پھانسی پر چڑھا دے۔
دنیا بھر میں اپنے مفادات کے حصول اور وہاں کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے لاکھوں افراد کو ہلاک کر دے اور کوئی منہ کھولے تو گردن زدنی ٹھہرے مگر یہ قانون قدرت کا عمل شروع ہوتا ہے خود وہ حکمران اپنے ہی ملک میں نشانہ بنتا ہے اور اس کے خلاف تحریک شروع ہو جاتی ہے اور اس پر سخت تنقید کی ابتداءہوتی ہے اور پھر ایک طاقت اٹھ کر اس کی اس ”خدائی“ سوچ پر ضرب کاری لگاتی ہے اس کی مثال اسلامی ملک ایران ہے جس پر اس کا ظلم اور ناروا قوانین نے وہاں کے رہنے والوں کا عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا اس پر اس قدر پابندیاں لگائی گئیں کہ پورا ملک گھٹن کا شکار ہو گیا۔ اس کی تیل کی برآمد پر پابندیاں عائد کی گئیں، مالی طور پر اسے الگ تھلگ کردیا گیا اور اس غلاظت میں اس کے کاسہ لیس ملک ہی نہیں بلکہ اس ملک کے مذہب سے تعلق رکھنے والے وہ ممالک بھی شامل تھے جو امریکہ کو ہی اپنا خدا مانتے ہیں اور خود بھی اس کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں اس صدی کا سب سے بڑا اور تاریخ ساز واقعہ چین اور ایران کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہے جس کے بعد اس پوری دنیا کا نقشہ ہی تبدیل ہو جائے گا۔ طاقت کا محور تبدیل ہو جائے گا۔ علاقائی حد بندیاں بدل جائیں گی اور ایک نئی تاریخ رقم ہوگی۔ بیجنگ اور تہران کے درمیان یہ جیویولیکل معاہدہ ہو گیا۔ یہ ایک ایسا وسیع اور کثیر الجہت معاہدہ ہے جسے صحیح معنوں میں ایک نئے عالمی عہد کی ابتداءکہا جا سکتا ہے۔ جس کے بعد امریکہ اور یورپ کا وہ طلسم ٹوٹ جائے گا اور وہ تب ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے جنہوں نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے کر اپنے ظالمانہ نظام کو مسلط کیا ہوا تھا۔ اس معاہدے کے بعد چین اور روس کا ایران میں فوجی منصوبہ جغرافیائی لحاظ سے پرشین گلف ہیں جو اس خطے کا اہم ترین مقام ہے۔ جس پر ایران کا قبضہ مستحکم ہو جائے گا۔
معاہدے کے تحت چین اور روس کو ایران میں فوجی مراعات حاصل ہو جائیں گی جس سے امریکہ کے بغل بچے اسرائیل کو ایران کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرات بھی نہیں ہو گی۔ یہ 23 سالہ معاہدہ جس کے تحت چین ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ دنیا کا سب سے بڑا مالی اقتصادی معاہدہ ہے جس کے تحت ترقیاتی اور فوجی منصوبے مکمل کائے جائیں گے اور ایران چین کو 23 سال تک کم قیمت پر تیل اور گیس فراہم کرے گا۔ یہ تاریخ ساز معاہدہ پوری دنیا اور خصوصاً مشرق وسطیٰ میں ایک عظیم تبدیلی لائے گا جو جغرافیائی اور سیاسی اثرات مرتب کرے گا۔ یہ معاہدہ جس پر اب دستخط ہونے والے ہیں تقریباً چار سال کی طویل مدت میں مذاکارات کے بعد طے کیا گیا جب کہ ایران ان دنوں شدید ترین بحرانوں سے گزر رہا تھا اور اس کی خود مختاری داﺅ پر لگی ہوئی تھی جس کے تحت اس کی جغرافیائی اور سیاسی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہو رہے تھے۔ یہ معاہدہ جس کے کچھ نکات ظاہر ہو چکے ہیں کے تحت 400 ارب ڈالر ایران کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے، جس میں موٹر وے، ریلوے اور ٹرینوں کو بہتر بنانا شامل ہے اس کے ساتھ ساتھ ہوائی اور بحری منصوبوں کو جدید ترین بنانا، ایکسپریس ویز، مرچنٹ نیوی، ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبوں کو ترقی دینے کے علاوہ تیل و گیس کے ذخائر کو جدید ترین بنانے کے لئے خطیر رقم سے منصوبے مکمل کرنا شامل ہیں جو کہ امریکی پابندیوں کے باعث شروع نہیں کئے جا سکے تھے۔ اس منصوبے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام منصوبے دونوں ملکوں کی اپنی کرنسی میں مکمل کئے جائیں گے۔ ایران نے اس معاہدے کے تحت چین کو ایران میں روس کے ساتھ مل کر فوجی اڈے قائم کرنے کی بھی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ اس معاہدے پر دونوں ملکوں کے تمام نکات پر اتفاق کے بعد جس پر دونوں ممالک کے ماہرین نے طویل مذاکرات کئے اور ایک ایک نکتے کو تفصیل کے ساتھ طے کیا ہے جس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی احترام اور رواداری کا جذبہ بنیادی تھا اور ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام شامل تھا جس پر اب دونوں ممالک کی پارلیمنٹ منظوری دیں گی جس کے بعد اسے آئینی تحفظ حاصل ہو جائے گا۔ یہ معاہدہ جو مشرق وسطیٰ کے پورے سیاسی سینارئیو کو تبدیل کر دے گا۔ دنیا کے لئے بالعموم اور عرب دنیا کے لئے بالخصوص ایک ایسا دچکا تھا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اور اس کے بعد جو تبدیلی آئے گی وہ کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھی۔ اس سلسلے میں بعض بنیادی نکات اگلے کالم میں پیش نظر ہوں گے۔ (جاری ہے)
454