۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 184

افکار ِ پریشاں

یادش بخیر، ایک مرتبہ پھر محفل میں آگیا ہوں، گزشتہ دنوں کہاں کہاں گئے، کیا کیا دیکھا اور کن کن مرحلوں سے گزرے، احباب سے ملاقاتیں رہیں، ماضی میں جا کر کس کس سے ملے اور یادیں تازہ کیں مگر اب یہ یادیں تاریخ کا حصہ بن جائیں گی۔ جن احباب سے گزشتہ سے پیوستہ دورے میں ملے ان میں سے بیشتر دنیا چھوڑ گئے وہ لوگ جن سے ملنے کی خوشی ہوتی تھی جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جاتا تھا اور جی چاہتا تھا کہ یہ ہمیشہ نظروں کے سامنے رہیں اور محبت کا زم زم بہتا رہے مگر پھر خبر آئی کہ وہ دنیا سے رخصت ہو گئے پھر وحشت طاری ہو گئی کہ اب جائیں گے تو وہ پرخلوص لوگ سدھار چکے ہوں گے تو کن سے دل کی باتیں کرسکیں گے اور کنہیں اپنا حال دل بتائیں گے اور اب کس کے کندھے پر سر رکھ کر دل کو سکون دیں گے۔
جب وطن (اب اسے وطن کہتے ہوئے عجیب لگتا ہے) جاتے تو محسوس ہوتا کہ جیسے وقت کے منجھدار میں کنارے سے آ لگے، گھنٹوں ان محافل میں باتیں کرتا گزرے، زمانوں کی یادیں احباب کا تذکرہ اور وہ لطائف جو بھول چکے تھے ایک بار پھ ران پر قہقہے لگا کر کبھی دوسروں پر، کبھی خود پر ہنستا۔ وہ احباب جنہوں نے جدوجہد کرکے اپنے بل بوتوں پر کامیابیاں حاصل کیں جن کی جدوجہد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جنہیں وقت کی کڑی دھوپ میں جلتے دیکھا وہ جو اپنی پرخلوص طبیعتوں سے اپنے جیسے افراد کے لئے ہر وقت تیار رہتے بلکہ ایثار و قربانی سے ان کے لئے روشن مینار بن جاتے، اب جب کہ وہ اپنی اس جدوجہد کے ثمرات پا کر بام ثریا پر مقیم ہیں تو ایک روحانی خوشی ہوتی اور یہ بھی ان تمام دنیاوی نعمتوں کے حصول کے بعد بھی آج بھی وہ اتنے ہی پرخلوص اور دردمند ہیں جتنے ماضی میں بلکہ دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کررہے ہیں اور ہر ایک دکھ درد میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ اسے بانٹ بھی رہے ہیں۔ مگر ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کا جو حال ہے اسے دیکھ کر جو کیفیت طاری ہو جاتی ہے اس کا کوئی مداوا نہیں ہے آج جو نفسا نفسی کا عالم ہے اس میں ایک دوڑ لگتی ہوئی ہے کہ کون کس سے آگے نکل سکتا ہے۔
عام آدمی کی زندگی دن بدن بدتر ہوتی جارہی ہے، وطن جس کا نام ہے وہاں لوگوں کی جان و مال اور عزت آبرو کا تحفظ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے مگر جب وہاں فرقہ واریت، قوم پرستی (ایک مخصوص قوم کی بالادستی) اور لسانی بنیادوں پر تفریق ہی مطمہ نظر بن جائے تو پھر وہ کوئی ایک قوم نہیں بلکہ ایک ہجوم کا درجہ حاصل کرلیتی ہے جس میں ہر فرد دوسرے کو کچل کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے جہاں قابلیت اور اہلیت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ اس کو ایک مخصوص نظریئے سے دیکھا جاتا ہے جہاں ایک طبقے کو جائز و ناجائز طریقے سے اوپر لانے کے لئے
دوسرے اہل کو نظر انداز کرکے چہیتوں کو ترجیح دی جاتی ہے جہاں کی مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے نئے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں جہاں مقامی ملازمتوں، تعلیمی اداروں میں طلباءکے داخلوں میں مقامی آبادی کو قطعی نظرانداز کرکے باہر والوں کو مسلط کیا جاتا ہے جہاں اراضی سے ناجائز قبضے کرکے وہاں باہر سے لا کر غیر مقامیوں کو آباد کرکے اور انہیں وہاں کے مستقل باشندے ظاہر کرکے ساری وسائل ہڑپ کرلئے جاتے ہوں وہاں کے تعلیمی اداروں میں باہر سے لا کر افراد کو متعین کر دیا جاتا ہے جہاں لوکل گورنمنٹ کے اداروں میں غیر افراد کو داخل کردیا جاتا ہے جہاں کی پولیس میں باہر سے جرائم پیشہ افراد کو لا کر شہر میں جرائم کی رفتار کو بڑھا کر اور لوٹ مار کر کے مقامی آبادی کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس کو اب وطن کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے جب محض زبان کی بنیاد پر لوگوں سے ترجیحی سلوک کیا
جاتا ہو، وہاں لوگ کس طرح سے سکوں میں رہ سکتے ہیں یہ ماحول دیکھ کر طبیعت میں ایک قسم کا احساس محرومی پیدا ہوتا ہے اور لوگ یہ سوچ کر کہ آنے والی نسل کو کیا ان قبضہ گروپ، غاصب سیاستدانوں اور ملکی دولت کو ہڑپ کرنے والے کسی نیکی کی امید نہیں ہو گی اور وہ ایک طرح سے دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے۔ وہ قابل اور با صلاحیت بچے جس کا تعلیمی اداروں میں تعلیم کا حق ہے ان کی جگہ کوٹہ سسٹم کی بے ساکھیوں اور مقامی اور غیر مقامی کی تفریق پیدا کرکے انہیں ان کے حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ سرکاری ملازمتوں پر مقامی افراد کے لئے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں، اندرون صوبے کے افراد کو لا کر ملازمتیں فروخت کی جاتی ہیں یا سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعہ نا اہل افراد کو دیدی جاتی ہیں نتیجہ اس کا یہ ہے کہ نوجوانوں میں احساس محرومی پیدا ہو رہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک دن وہ لاوا جو اندر اندر پک رہا ہے جوالہ مکھی کی طرح پھوٹ پڑے گا۔ پھر ایک خوفناک تصادم رونما ہو گا اور ایک بار پھر غاصب حکمران غیر مقامی پولیس اور ان غنڈوں کے ذریعے جنہیں وڈیرے وزیر اور با اثر افراد اندرون صوبے سے کراچی لے آتے ہیں قتل عام کی سی صورت حال پیدا ہو جائے گی ایک دفعہ پھر ہجرت شروع ہو گی کیونکہ اندرون صوبے سے غیر سندھی افراد کی جائیدادوں اور کاروبار پر قبضے کرلئے جائیں گے اور انہیں جانوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا جس طرح ان ہی لوگوں نے ماضی میں بھی کیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں