نئی نسل کے لئے بے حسی کا پیغام 314

امریکی فوجی انخلاءکے بعد۔۔۔

افغانستان میں 20 سال تک طالبان سے برسر پیکار رہنے کے بعد دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ ناکام و نامراد واپس لوٹ گیا اور افغانستان کو دھکتے ہوئے شعلوں میں لپٹا دیکھنے کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھا ہے۔ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ تقریباً 85 فیصد امریکی اور نیٹو فوجی بحفاظت افغانستان سے نکل چکے ہیں اور ستمبر 11، 2021ءتک افغانستان سے تمام فوجی رخصت ہو چکے ہوں گے۔
دوسری جانب طالبان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور انہوں نے اپنی جیت کی خوشیاں منانا شروع کردی ہیں اور تیزی کے ساتھ پیش قدمی کرکے افغانستان پر قابض ہونے کے لئے پرعزم ہیں۔ وہ ہر نئے دن نئے افغانی شہر پر فتح کا جھنڈا گاڑ رہے ہیں یقیناً کسی مسلمان کو امریکہ کی افواج یا نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاءپر افسوس نہیں مگر کسی کو طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے سے بھی دلچسپی نہیں کیونکہ پنجابی طالبان ہوں (جنہیں آپ پاکستانی طالبان بھی کہہ سکتے ہیں) یا پھر افغانی طالبان دونوں کی سوچ میں کوئی فرق نہیں مگر سوال یہ ہے کہ سوویت یونین سے 1989ءمیں فتح حاصل کرنے کے بعد طالبان نے افغانستان میں کون سی دودھ کی نہریں بہا دیں۔ وہاں تو منشیات، ہم جنس پرستی اور خودکش بمباروں کی فیکٹریاں قائم ہو گئیں، ہسپتالوں اور اسکولوں کو بمبوں سے اڑا دیا گیا اور افغانستان کو ترقی پذیر ملک سے ترقی یافتہ ملک بنانے کے بجائے اسے پتھروں کے دور میں دھکیل دیا گیا۔ اسامہ بن لادن ہوں یا ملاعمر دونوں کی سوچ میں کوئی فرق نہیں تھا اور نہ کسی نے بہتری کی سنجیدہ کوشش کی بجز اس کے طالبان کے کئی دھڑے بن گئے اور وہ آپس میں دست و گریباں رہے۔ افغانستان کی اس آگ سے پاکستان بھی محفوظ نہ رہ سکا اور ضیاءالحق کے غلط فیصلوں کا خمیازہ پوری قوم نے بھگتا بلکہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ پاکستان میں آج بھی افغانیوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور مختلف قسم کے غیر قانونی دھندوں میں ملوث ہے۔ یقیناً ہماری افواج نے کافی حد تک چیزوں کو کنٹرول میں کر رکھا ہے مگر ان کا یہ کنٹرول ان کے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ہے یا پھر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اس پوری صورتحال کی ذمہ دار بھی ہماری فوجی قیادت ہے کہ جنہوں نے افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر پاکستان پر افغانیوں کا عذاب مسلط کردیا جب کہ دنیا جانتی ہے کہ افغانی پاکستانیوں سے کس قدر شدید نفرت کرتے ہیں مگر شاید یہی اعلیٰ قیادت کا پلان تھا کہ پاکستان اور افغانستان کو ایک جیسی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ آج پھر خطرہ کی گھنٹیاں بج اٹھی ہیں۔ امریکی فوج کے نخلاءکے بعد طالبان کے افغانستان پر قابض ہونے کی صورت میں پاکستان پر کیا اثرات رونما ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر مستقبل کچھ بہتر دکھائی نہیں دیتا کہ افغانستان میں ہونے والی خونریزی سے پاکستان خود کو کیونکر محفوظ رکھ سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں