تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 595

امیر حکمراں، غریب ملک

خلیفہ ہاروں رشید نے مصر کی فتح کے بعد وہاں پر اپنے بدعقل، بدصورت غلام خصیب کو حاکم مقرر کیا۔ مصر کی سرزمین جس کو فرعون نے اپنا مرکز بنانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ حاکم کے لئے غلام ہی ہونا کافی ہے، نہ کہ خدائی کا دعویٰ کرنا۔ جیسا کہ ہمارے حاکم اپنے کو خدا سمجھتے ہیں، ایک بار مصر کے دربار میں خصیب کے روبرو کسانوں نے فریاد کی کہ دریائے نیل میں سیلاب آنے کی وجہ سے ان کے کپاس کے سارے کھیت برباد ہو گئے ہیں تو خصیب نے جواب میں کہا کہ تم لوگوں کو چاہئے کہ روئی کے پودوں کی جگہ اپنے کھیتوں میں اون بوئے کیونکہ اون پانی میں خراب نہیں ہوتی۔ آج ہمارے وطن کا جو حشر ہوا ہے اس پر جو حاکم رہے ہیں ان کا رویہ بھی اس غلام خصیب کی طرح رہا ہے ہمارا وطن جو اس وقت دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے، اس کی معیشت کا حال یہ ہے کہ اس کی کرنسی پڑوسی ملک افغانستان، ایران اور بنگلہ دیش سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ بھارت سے تو اس کا مقابلہ ہی نہیں۔ بھارت سے ان کا مقابلہ صرف جنگی ہتھیاروں میں ہی ہو سکتا ہے یا کھیلوں کے میدان میں۔ ہمارے ملک کے حکمراں بھارت کے حکمرانوں کے مقابلہ میں وطن کی محبت میں پیچھے ہیں۔ ہمارے ملک کے حکمرانوں سے مراد وہ بھی ہیں جو صاحب اقتدار ہیں اور وہ بھی جو صاحب اختیار ہیں جن کے پاس اختیار ہیں ان کا موازنہ بھارت کے صاحب اختیار سے کیا جائے اس کا اندازہ کسی بہت بڑے ملک کے صاحب اقتدار نے اپنے تبصرے میں اس طرح سے کیا ہے کہ جب بھی ہم بھارت کے صاحب اختیارات سے مذاکرات کرتے تو ہمیں اپنی شرائط منوانے میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بھارتی نمائندے اپنے ملک کی خاطر اس کے لئے مراعات حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوڑی کا زور لگا دیتے اور اپنی غیر معمولی جدوجہد کے بعد مطلوبہ مقاصد بڑی مشکل سے حاصل کرتے اور جب وہ کسی حتمی معاہدے تک پہنچ کر اپنے ملک کے لئے بے تہاشہ مراعات حاصل کرکے کسی معاہدے کے قریب پہنچتے تو آخر میں اپنے لئے یعنی اپنے کمیشن کا مطالبہ کرتے جو کہ بادل ناخواستہ ان کو بھی دیا جاتا اس کے برخلاف پاکستان سے جب بھی مذاکرات ہوتے تو ان کے نمائندے سب سے پہلے یہ مطالبہ کرتے کہ ہمارا ذاتی کمیشن کتنا ہوگا اس کے لئے ہم سے بہت بحث اور تمہید کرتے، خوب بڑھا چڑھا کر اپنا کمیشن حاصل کرتے پھر جب پاکستان کے لئے اصل مذاکرات شروع ہوتے تو وہ سب ہماری شرائط پر مطمئن ہو جاتے اس طرح پاکستان کے لئے ہماری تمما اپنی شرائط پر معاہدے ہو جاتے یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان سے ہر معاہدہ با آسانی کرنے میں کامیاب ہو جائے اس کے برخلاف بھارت کے نمائندے ہمارے دانتوں سے پیسہ نکلوا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے حکمران امیر ترین ہیں اور پاکستان کی ریاست غریب ترین ہے اس کے مقابلہ میں بھارت کے حکمران غریب ہیں اور ان کی ریاست امیر سے امیر ترین ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کا چاہے کسی بھی طبقہ سے تعلق ہو ان کا معیار زندگی دن بہ دن بلند سے بلند تر ہو رہا ہے۔ اور ان کے عوام کا معیار زندگی ان کی ریاست کا معیار پست سے پست ہو رہا ہے۔ سیاست کے میدان میں بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کا موازنہ کیا جائے تو اس میں بھی زمین آسمان کا فرق سامنے آجائے گا۔ پاکستان کے سیاستدانوں کا معیار زندگی بہت شاہانہ نظر آئے گا اور نا کا موازنہ عرب شہزادوں کی معیار زندگی سے کیا جاتا ہے دنیا کی تمام آسائشوں سے ان کے محلات نما حویلیوں سے بھرے پڑے ہیں کہ ان کے پاس جدید سے جدید ماڈل کی پر آسائش گاڑیوں کا فلیٹ ان کے استعمال میں نظر آئے گا۔ ان کے گھر کے در و دیوار قیمتی نوادرات سے مزین ہوتے ہیں۔ ان کے ذاتی گھر کے ٹوائلیٹ میں جدید قیمتی یہاں تک کہ ان کے زیر استعمال سینیٹری کا سامان سونے کا لگا ہوگا ان کے بڑے بڑے ذاتی فارم ہاﺅس میں دنیا کی عیاشیوں کی چیزوں سے بھری پڑی ہوں گی۔ یہاں تک کہ نہ صرف خود ان کے لئے سرکاری اشیاءکا بھی بے دریغ استعمال ہوتا نظر آئے گا بلکہ ان کے ماتحت افراد بھی ان عیاشیوں کے استعمال میں برابر کے شریک ہوں گے۔ ملک کے ہر پُرفضا مقام پر ان کے لئے علیحدہ فارم ہاﺅس پر آسائش اشیاءسے مزین ملیں گے۔ اس کے برخلاف بھارت کے سیاست دانوں کا طرز زندگی انتہائی سادہ اتنا کہ پاکستان کے تیسرے چوتھے درجہ کا حکمران کا طرز زندگی ان سے کہیں بہتر دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں جن میں صدر، وزیر اعظم جس میں عمران خان کا گھر عظیم عالی شان گھر ہو بنی گالا میں ہو۔ یا نواز شریف کا گھر جاتی امراءرائے وند میں ہو یا لندن میں ان کے قیمتی فلیٹ ہوں، آصف زرداری کا بلاول ہاﺅس ہو یا سرے محل ہوں یا ان کا ذرعی زمین کی جاگیر ہو یا شوگر ملیں ہوں ان کے تمام تمام وزراءکا بھی معیار زندگی کم و بیش اس ہی قسم کا ہے پھر ان کے نیچے سیکریٹریوں، ڈپٹی سیکریٹریوں، سیکشن افسروں کا طرز زندگی بھی ہندوستان کے بڑی سے بڑی سیاسی شخصیات کے مقابلے میں انتہائی بلند نظر آئے گا بلکہ ہندوستان کے سیاسی حکمران جو صاحب اقتدار ہونے کے باوجود صاحب اختیار ہیں ان کی طرز زندگی انتہائی سادہ نظر آتی ہے۔ ان کے معاشرے میں فوجی جرنلوں کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگای جا سکتا ہے ان کا ایک جرنل جگجیت سنگھ اروڑا جس نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کی فوج کو شکست دینے والی فوج کی قیادت کی اور مشرقی پاکستان کو فتح کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ یہ کردار ایسا ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ اگر کوئی پاکستان کی فوج کا جنرل کشمیر کو آزاد کروا کر فتح کرلے۔ اس جنرل اروڑا نے 16 دسمبر کے حوالے سے اپنے انٹرویو میں جو کسی چینل نے ریکارڈ کیا جس میں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک چھوٹی سی زرعی زمین کے ٹکڑے کی دیکھ بھال کرکے اپنی بقیہ زندگی کا ذریعہ معاش بنائے ہوئے تھا۔ وہ ہمارے ملک کے کسی معمولی سپاہی کے مقابلے کا تھا جو انتہائی عاجزانہ نظر آتا ہے۔ ان کا موجودہ سرونگ جنرل بھی اپنی فوج کے لئے معمولی سے معمولی مراعات حاصل کرنے کے لئے وزیر اعظم تو کجا ان کے وزیر یا سیکریٹری کے کمرے کے باہر گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کیا کرتے ہیں یہ ہی حال ہمارے دوسرے پڑوسیوں کے فوجی حکمران کا ہے۔ جو نہ اقتدار میں بلکہ نہ صاحب اختیار ہیں ہمارے فوجی حکمرانوں کے برعکس۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا ملک انتہائی غربت کے مسائل سے دوچار ہے، کیونکہ یوں محسوس ہوتا ہے، زندگی کے ہر شعبہ میں غلامان ذہنیت کے حکمراں مسلط ہیں جو کہ اپنے اپنے شعبوں میں خصیب کی پیروکار دکھائی دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارا ملک غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ آج دنیا بھر میں ہمارے حکمراں بھکاریوں کی طرح ہر ملک میں کشکول لے کر گھوم رہے ہیں اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے دنیا کی ہر نعمت اس ملک میں موجود ہے ان وسائل کو اگر خلوص سے استعمال کیا جائے تو ہماری حیثیت بھیک مانگنے والے کی نہیں بلکہ دوسروں کو نوازنے کی ہو۔ لیکن ہمارے ملک جو امیر ترین حکمران ہیں وہ مزاجاً غلام ہیں اپنے اپنے شعبوں میں غلام خصیب ہیں جس کی وجہ سے عوام اور ریاست غریب اور حکمراں امیر سے امیر ترین ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں