۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 246

برائے فروخت

ایک معمہ ہے سمجھنے کا سمجھانے کا۔ ایک ملک ہے جہاں ریاست بھی ہے، حکومت بھی ہے، قانون بھی ہے، نام نہاد فوج بھی ہے، پولیس بھی ہے، عدالتیں بھی اور تو اور اس ملک میں آئین بھی ہے گویا ریاست کے سارے وجود ہیں اور ہر لوازمات موجود ہیں تو پھر قاتل بھی ہیں، ڈاکو بھی ہیں، لٹیرے بھی اور تو اور جج بھی ہیں گویا یہ ملک وہ ساری شرائط پوری کررہا ہے جو اقوام متحدہ کے تحت کسی خودمختار مملکت سمجھنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ مگر؟ اس ملک میں نہ قانون کی علمداری ہے، نہ انصاف ہے، نہ امن ہے، نہ امان ہے، حکومت ہے مگر اس کی رِٹ نہیں ہے، قانون ہے مگر صرف غریبوں کے لئے، امیروں کے گھر کی لونڈی ہے۔ فوج ہے، پتہ نہیں کیوں ہے، یہ ڈی ایچ اے بناتی ہے، اپنے ہی ملک میں زمین فتح کرکے فتح کے ڈنکے بجاتی ہے، پولس نہ ہو تو ملک میں لوٹ مار کون کرے، یہ بیچاری ایک مخلوق عوام کے تحفظ کے لئے قائم کی گئی تھی مگر یہ ان ”عوام“ کا کردار ادا کررہی ہیں۔ جنہیں دوسرے ممالک میں مجرم کہا جاتا ہے جہاں دوسرے ممالک میں یہ چیز عوام کے لئے دوست کا درجہ رکھتی ہے مگر اس ملک میں اسے دیکھ کر عوام ہواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ کیوں؟ یہ عوام ہی جانیں جو عموماً ان کے سامنے مرغا بنے نظر آتے ہیں اور پولیس ان سے انڈا دینے کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے اور کمال ہے نکلوا بھی لیتی ہے۔ عدالتیں زبان یار خدا یہ کس کا نام آیا آیا، یہ سیاستدانوں کی گھر کی لونڈیاں ہیں، ڈاکوﺅں، چوروں اور لٹیروں کے لئے آغوش اور غریب عوام کے حق میں زہریلا پن، بڑے سے بڑے مجرم کو منٹوں میں ضمانتیں بڑے سے بڑے غاصب کو اسٹے آرڈر دینا ان کا فرض راتوں میں ان کے کرتا دھرتا شراب، کباب اور شباب ہوتے ہیں دن میں یہ بگلا بھگت بن کر قانون کی ایسی تیسی کرتے نظر آتے ہیں۔
اب رہے ملک کے اصل حاکم ڈاکو، لٹیرے، غاصب یہ اسمبلیوں میں براجمان اربوں روپیہ غریب آدمی کے ٹیکس کے ان پر خرچ اور یہ اپنی حرکتوں سے دوسرے ممالک کے معیار کے مطابق نا اہل، بدکردار اور عوامی عہدوں کے لئے نا اہل مگر اس ملک میں یہ سیاستدان کہلاتے ہیں یہ بڑے سے بڑا جرم کرلیں یہ ملک لوٹ کر کھا جائیں اسمبلی میں یہ بکاﺅ گھوڑے کروڑوں روپیہ میں خریدے جائیں اور فروخت کئے جائیں مگر کوئی ان پر انگلی نہ اٹھائے کیونکہ یہ اس بدقسمت ملک کے وہ فرشتے ہیں جن کے کردار سے ابلیس بھی پناہ مانگتا ہے۔ اس ملک کے سیاستدانوں کے اصل کردار کو اگر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو ان کا دم نکل جائے حیرت سے کہ ان افراد کے ہوتے ہوئے یہ ملک اب تک سلامت کیوں ہے؟ اس کے ساتھ وہ نام نہاد سیاسی پارٹیاں جنہوں نے حکمرانی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے بڑی بے شرمی کے ساتھ خود کو دودھ سے دھلا ہوا ثابت کرنے کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہاتی رہتی ہیں اور ایسی سیاسی پارٹیاں تو ان میں انسانوں کی جگہ ”لوٹے“ بھرے ہوتے ہیں جو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ آج کسی کی شان میں قیصدے پڑھ رہے ہیں تو اگلے ہی دن ان کی سات پشتوں کے عیب گنوا رہے ہوتے ہیں ان سیاسی پارٹیوں میں اب ان افراد کا اضافہ ہو گیا ہے جن کی جماعتوں میں مذہب کا تڑکا لگایا ہوا ہے یہ اپنی وضع قطع سے ایک الگ ہی مخلوق ہیں ان کا گیٹ اپ دیکھیں تو محسوس ہو کہ یہی مذہب کے رول ماڈل ہیں مگر ان کے کردار دیکھ کر ابلیس بھی دانتوں میں انگلیاں دے لے کہ یہ بظاہر مذہب کے ٹھیکیدار مگر باطن میں ان کردار کفار سے بدتر۔
یہ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر مذہب کی ڈھال استعمال کرتے ہوئے ہر وہ کام کر گزرتے ہیں جو ایک عام انسان سوچنا بھی گوارہ نہ کرے اب انہوں نے سیاسی پارٹیوں کو کرایہ پر جنگجو فراہم کرنے کا دھندہ شروع کیا ہے انہوں نے اپنے مدارس میں لاکھوں کی تعداد میں طالب علموں کے نام پر ایسے جنگجو تیار کئے ہیں جو اپنے ”قائد“ کے حکم پر دنیا کا ہر کام کرنا حصول جنت کا ذریعہ سمجھتے ہیں انہیں باقاعدہ جنگی حکمت عملی، ہتھیاروں کا استعمال اور تخریب کاری کی تربیت دی گئی ہے اور اس سلسلے میں پڑوسی ملک کی مالی، فنی اور تخریب کاری کی تربیت بھی حاصل۔ اب یہ افراد معقول حق محنت پر سیاسی پارٹیوں کو افرادی قوت فراہم کرتے ہیں، دھرنا ہو، لانگ مارچ ہو یا عدالتوں میں یشی کے موقعہ پر رکاوٹیں کھڑی کرنا ہو، مسلح رکاوٹیں فراہم کرنی ہوں۔ یہ اس کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں، ایک عورت جس کا پورا خاندان ملک کو لوٹنے کا مجرم ہے اور جس کا باپ لندن میں بیٹھ کر ملک کی فوج اور عدالت کے خلاف عوام کو بغاوت کی ترغیب دے رہا ہے اس کے عدالت کے سامنے پیش ہونے کے معاملہ پر جماعت اپنے مسلح کارکنوں کو استعمال کرنے کے لئے پوری طرح تیار تھی اور یہی نہیں بلکہ ان کی دیگر حامی جماعتیں بھی اس ”کار خیر“ میں س کا بھرپور ساتھ دینے کا عندیہ دیا اور خیال تھا کہ اس سلسلے میں ریاست اپنا کردار ادا کرے گی۔ حکومت کی رٹ قائم ہو جائے گی مگر کیا ہوا؟ خواب تھا کچھ کہ سوچا اور اب افسانے تھے اس عورت کی عدالت میں حاضری ہوگی۔
گویا ریاست، حکومت، عدالت، قانون اور آئین میں ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا اور پہلی دفعہ سب کی پول کھل گئی اب یہ مسلح گروہ یہ تخریب کار یہ نام نہاد و مذہبی راہنما جب چاہیں گے اور جہاں چاہیں اپنی بات منوا لیں گے اب سارے قاتل، ڈاکو اور لٹیرے ان کی خدمات حق المحنت دے کر حاصل کرلیں گے یہی نہیں بلکہ اب وہ دشمن ممالک جو اس ملک کو برداشت نہیں کررہے ان عناصر کی مدد سے اور ان کے منہ مانگے پیسے دے کر اپنے مفادات حاصل کرلیں گے اور ویسے بھی یہ رنگے ہوئے سہارے غیر ممالک کے ایجنڈے پر برسوں سے کام کررہے ہیں اب یہ رجسٹرڈ کمپنی کے طور پر برائے فروخت موجود ہیں اور پورے ملک میں یہ صدا عام ہے کہ ”بولو جی تم کیا کیا خریدو گے“ اب ہر فرد برائے فروخت موجود ہے، صرف خریدار کے جیب میں مال ہونا چاہئے۔ سیاستدان، مذہبی بہروپیے، جج، پولیس اور عدالتوں کا جمع بازار لگا ہوا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں