سیاسی رسم 498

بچوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی جنسی زیادتی

پاکستان کے شہر قصور میں جنسی زیادتی پر پیش آنے والے واقعات کے بعد پورے پاکستان میں عوام کے جانب شدید مذمت کی گئی تھی۔۔قصور میں زینب کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کے بعد ملک بھر میں ایسے واقعات کے حوالے سے غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔۔ لیکن اس کے باوجود بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔حالانکہ اس بات کا اعتراف خود وفاقی وزیربرائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی اسلام آباد میں ایک تقریب میں کیا۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے۔ کہ قانون کے جانب سے سختی سے عملدار آمد نہیں ہو۔۔اور اسی لیے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سن دوہزار اٹھارہ میں تین ہزار آٹھ سو بتیس ایسے واقعات پیش آئے ہیں جبکہ رواں سال بھی سینکڑوں ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں اوسطا روزانہ تقریبا سات بچے جنسی ہراسگی کا نشانہ بنتے ہیں۔۔ بعض اوقات ایسے بچے بچیوں کو قتل بھی کر دیا جاتاہے۔اگر میں اپنے بچے کے ساتھ جنسی زیادتی اور اسے قتل کرنے والے مجرم کو جلا کر اس کا جسم خاک بھی بنا ڈالوں۔ تو بھی میری روح کو سکون نہیں ملے گا۔ میں اسے کبھی معاف نہیں کر پا¶ں گی۔۔ یہ کہنا ہے۔۔ گزشتہ برس قصور میں ایک آٹھ سال بچے کی والدہ کا۔۔ اس خاتون کے بیٹے کو پہلے ریپ کیا گیا تھا۔۔ اور پھر اسے قتل بھی کر دیا گیا۔۔ کسی بچے کی موت اس کے والدین کے لیے یقینی طور پر بہت بڑا المیہ ہوتا ہے۔۔ لیکن ان والدین کو کیسے سکون آئے۔ جن کے معصوم سے بیٹے بیٹیوں کے ساتھ مجرم پہلے جنسی زیادتیاں کرتے ہیں۔۔ اورپھر انہیں قتل بھی کر دیتے ہیں۔۔ 2018ءمیں پاکستانی شہر قصور کی کم عمر زینب کی تصور نے سب کے دل دہلا دے تھے۔۔ اس بچی کو ریپ اور قتل کرنے والے مجرم کو سزائے موت دے بھی دی گئی لیکن پاکستانی معاشرے میں ایسے جرائم کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔زینب کے قتل کے بعد بھی قصور میں اس نوعیت کے مزید جرائم بھی پیش آچکے ہیں۔۔ اب حال ہی میں پاکستان کے شہر مردان میں بھی ایک بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے پاکستانی قومی اسمبلی نے زینب الرٹ بل کو منظور کیا تھا۔۔ لیکن ملکی سینیٹ میں اس کی کچھ شقوں پر اعتراض بھی کیا گیا تھا۔۔ توقع ہے کہ اس بل کو جلد منظور کر لیا جائے گا۔۔ مگر قانون سازی کے ساتھ ساتھ آگہی بھی ضروری ہے۔۔بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے ترجمان سدرہ ہمایوں نے ڈی ڈبلیوسے گفتگوں کرتے ہوئے کہا۔ پاکستان میں بہت ہولناک صورت میں بچوں کےساتھ جنسی زیاتیوں کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔۔ گزشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں تیرہ سوسے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔۔ سدرہ ہمایوں کے مطابق اس تعداد میں وہ بہت سے جرائم شامل ہی نہیں ہیں۔۔جن کی متاثرہ بچوں کے والدین پولیس کو رپورٹ نہیں کرتے۔۔ رپورٹ کے مطابق ایسےزیادہ تر جرائم میں متاثرہ بچے کا کوئی نہ کوئی قریبی رشتہ دار ، پڑوسی یا جاننے والا ملوث ہوتا ہے۔۔ اور یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے ایسے کیسز پولیس کو رپورٹ نہیں کیے جاتے۔۔
دوہزار سترہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے تین ہزار چار سوپینتالیس واقعات رپورٹ ہوئے جن میں دوہزار اٹھارہ میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا۔۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات آصف رضاکے خیال میں اسکول اور کمیونٹی کی سطح پر نہ صرف اس مسئلے پر کھل کر بات ہونی چاہیے بلکہ بچوں کے تربیت میں چیزوں کو تنقیدی کے گرد تقدیس کا ہالہ نہیں بننا چاہیے مثال کے طور پر ہمارے ہاں مذہبی تعلیم دینے والے اساتذہ کو بہت زیادہ مقدس بنا دیا جاتا ہے۔ آپ اخبارات اٹھاکہ دیکھ لیں ایک بڑی تعداد اس طبقے کی نہ صرف بچوں پر تشدد کرنے میں ملوث ہے بلکہ وہ ان کو جنسی زیادتی کابھی نشانہ بناتے ہیں۔ اگر تقدیس کا تصور نہیں ہوگا۔۔ تو بچہ بغیر کسی خوف کے کس بھی غیر معمولی حرکت کو والدین کے ساتھ شیئر کر سکتا ہے۔ لیکن کیونکہ بچے کو معلوم یے کہ والدین قاری یا کسی مولوی کی بہت عزت کرتے ہیں۔ اس لیے وہ ایسے واقعات کو بیان کرنے سے ڈرتا ہے۔ معاشرے کا مجموعی طور پر کمزور کے خلاف رویہ بہت برا ہے۔کیوکہ بچے کمزور ہوتے ہیں اس لیے ان پر حملہ آسان ہو جاتا ہے۔ اگر قوانین پر سختی سے عمل درآمدکیا جائے تو اس کا سدباب ممکن ہے۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجموعی سماجی تبدیلی اور رویوں میں تبدیلی بھی اہم ہے۔کیوکہ پاکستان میں انصاف غریب کو ہی ملتا ہے۔ اس لیے معاشرے میں بچے کو صرف خاموش رہنے کی تربیت دی جاتی ہے۔۔ اور بڑوں پر اندھا اعتماد کرنا سکھایا جاتا ہے۔ انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ گڈٹچ اور بیڈ ٹچ کیا ہے۔ والدین بچوں سے اس موضوع پر نہ ہی کھل کر بات کرتے ہیں۔ اور ان کی تربیت کرتے ہیں۔۔ اسکول میں بھی یہ موضوع شجر ممنوع ہے۔ پاکستان میں میڈیا نے اس حوالے سے آگہی پھیلانے میں اہم کردار کر سکتا ہے لیکن ہمارے میڈیا کی ساری توجہ سیاست پر ہے۔۔ مثال کے طور پر گزشتہ پنجاب حکومت نے بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف آگہی سے متعلق ایک کتابچہ تیار کیا تھا۔ اس کو بہت سے ماہرین کو مشورے کے بعد تیار کیا گیا تھا۔۔ اور اس کو اسکولوں میں پڑھایا جانا تھا۔ لیکن اب یہ کتابچہ موجودہ حکومت نے غائب کر دیا ہے اور کچھ اس کا پتہ نہیں چل رہا۔ حیرت کی بات ہے کہ بات میڈیا پرکہیں نظر نہیں آتی۔۔ ہمارے ملک میں انسانیت کا قتل اور انسانوں کا قتل جیسے ایک معمول بن چکا ہے۔ ہم لاشوں پر سوشل میڈیا پر ٹرینڈبناکر ماتم کرتے ہیں بھاری بھر کم الفاظ میں مذمتی ٹویٹس کرتے ہیں آنسو¶ں والے اور ٹوٹے دل والے ایموجی پوسٹ کرتے ہیں اور دوبارہ زندگی کے میلے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔۔ لیکن اس طرح کے بچوں لیےجنسی قتل ہونے کے خلاف قانون سے کوئی ٹھوس عمل کا مطالبہ نہیں کرتے ہے۔۔ جو کے کرنے کی اہم ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں